Roads of Hyderabad city
حیدرٓباد کی سڑکیں، نئی یا پرانی؟
وقار احمد خان
2K12/MC/117
تحقیقاتی رپورٹ
کہتے ہیں کہ اگر کسی ملک کی تعمیر و ترقی کا اندازہ کرنا ہو تو دیکھو کہ اس ملک کی سڑکیں کیسی بنی ہیں۔ ظاہری طور پر بھی یہ بات حقیقت ہے کیونکہ اس بات سی قطعا انکار نہیں کےا جاسکتا کہ باہمی آمد و رفت، خام مال اور تیار شدہ مال کی نقل و حمل کے لئے سڑکیں سب سے بہترین اور موثر زریعہ ہیں۔
کسی ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے ےا پھر خام مال یا پھر تےار شدہ مال پہنچانے کے لئے جوسب سے پہلا سوال کےا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ راستہ کیسا ہے؟ سڑک پکی ہے یا کچی؟ ٹوٹی ہوئی تو نہیں ہے ؟ اور شاید ہمارے حکمرانوں کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی تو کراچی تا لاہور موٹر وے کی منظوری دی گئی اور اسی کی دیکھا دیکھی صوبائی حکومت کو ہوش آیا تو سوچا کہ حیدرآباد کو بھی تھوڑی بہت ترقی دے دی جائے اور یوں سڑکوں کا ایک نےا جال بچھایا جانے لگا۔
اس میں اتنی جلدی دکھائی دی کہ پورے حیدرآباد میں بیک وقت سڑکیں تعمیر ہونا شروع ہوئیں۔ قاسم آباد، لطیف آباد، حالی روڈ، گاڑی کھاتہ، جی۔او۔آر کالونی سمیت کئی علاقوں کو ایک ہی وقت میں بند کردےا گےا۔اب ہماری انتظامیہ کو کوئی یہ بات سمجھائے کہ اس طرح بھی ہوتا ہے کیا۔نتیجہ یہ کہ آئے دن پورے شہر میں جگہ جگہ بدترین ٹریفک جام دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک اور اہم بات جو ان ترقیاتی کاموں میں دیکھنے میں آئی ہے کہ پرانی سڑکوں کو ہٹائے بغیر ہی نئی سڑکیں اسی کے اوپر تعمیر کردی گئیں ہیں۔ جس کی نتیجے میں رہائشی اور کاروباری آبادی سڑکوں سے کئی فٹ نیچے دب گئی ہیں۔ لیکن نہ ہی حکومت کو پرواہ ہے اور نہ ہی ٹھیکیداروں کو کہ انہیں تو زےادہ سے زےادہ پیسہ بچانا ہے۔
دنےا بھر میں سڑکوں کے لئے یہی طریقہ کار استعمال کےا جاتا ہے کہ پہلے پرانی سڑک کو ہٹاےا جاتا ہے اور مناسب طریقے سے جگہ ہموار کرکے باقاعدہ نقشے کے ذریعے ٹریفک کی روانی اور برساتی پانی سمیت نکاسی کے نالوں کو بھی مد نظر رکھ کر نئی سڑک تعمیر کی جاتی ہے۔ مگر ہمارے یہاں اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ رات کو لوگ سو کر اٹھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ باہر نئی سڑک تعمیر ہوچکی ہے۔ اگر اقبال اس وقت موجود ہوتے تو شاےد کہتے کہ،
سڑک تو بنادی شب بھر میں ٹھیکیداروں نے۔۔۔
اور عوام الناس بھی اسی پر خوش دکھائی دیتے ہیں کہ ترقےاتی کام ہو رہا ہے۔ اس بات کو جانے بغیر کہ اس طرح کے ترقےاتی کاموں سے آگے کتنی مشکلات پیش آتی ہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو اکثر و بیشتر نکاسی آب کا پانی مختلف جگہوں پر کھڑا نظر آتا ہے۔ گندگی کے ڈھیر اور ابلتے گٹر ہر طرف ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جس وقت سڑک بنائی جاتی ہے اس وقت پانی کے اخراج کا مکمل بندوبست نیہں کےا جاتا اور نالے اور گٹر بند ہو جاتے ہیں۔ جسکی وجہ سے ہمیں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس وقت اگر ہم قاسم آباد کو دیکھیں تو سڑک گھروں کی چھتوں سے ملنے لگتی ہے جو کہ حکومت اور ٹھیکیداروں کی ںناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اور آنے والے وقتوں میں یہ ترقےاتی کام زحمت کا رخ اختےار کرلینگے۔
ضرورت اس امر کی ہی کہ حکومت ہوش کے ناخن لے اور ٹھیکیداروں کو پابند کرکے، معےاری اور عالمی منصوبہ بندی کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کرے تاکہ عوام کا پیسہ صحیح معنوں میں عوام کی فلاح کے لئے استعمال کےا جاسکے۔
دسمبر 2015
ماس کام کے محمود غزنویز (امپروئر فیلوئر)
Labels: وقار احمد خان
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home