Zeal-Pak
ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری
وقار احمد خان
2K12/MC/117
اک عرصہ پہلے تک پاکستان میں کئی ایسی صنعتیں موجود تھیں جو حکومتی خزانے کے لئے مالی فوائد کا باعث بنتی تھیں۔ مگر حکمرانوں کی نا اہلی سے کئی صنعتیں تباہی کے دہانے پر پہنچیں اور پھر اونے پونے داموں فروخت کردی گئیں۔ ایسی ہی ایک اہم صنعت ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری بھی تھی۔ ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری ایک عرصے تک دنیا اور پھر ایشیا کی سب سے بڑی فیکٹری رہی جہاں مزدور اپنے خاندانوں سمیت رہائش پذیر تھے۔ مگر حالات نے اچانک ایسا رخ موڑا سب کی خوشیوں کو نظر لگ گئی اور آج ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی حالت یہ ہے کہ خود اپنے مزدوروں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔
1992 میں نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں نجکاری کمیشن کے ذریعے ذیل پاک محض ۲۲ کروڑ کے عوض سکندر جتوئی کوفرخت کردی گئی۔ ذرائع کہتے ہیں کہ جس وقت سودہ ہوا اس وقت فیکٹری میں 10 کروڑ روپے مالیت کا سیمنٹ تیار موجود تھا جبکہ 16 کروڑ روپے کا سیمنٹ پیداواری عمل میں تھا۔ اس کے علاوہ فیکٹری کی عمارت، پلانٹس، ہیوی مشینری، متعدد گاڑیاں، آفیسرز اور مزدوروں کی کالونی، فیکٹری سے ملحقہ زمیں، ان سب کا کوئی حساب نہیں رکھا گےا۔
1992کے بعد سے کئی مرتبہ فیکٹری کا پیداواری عمل بند کرکے مزدوروں کو نوکری سے بے دخل کےا گےا۔ مگر چونکہ حکومتی شیئرز اب بھی موجود تھے اسی لئے مزدوروں کی تحاریک نے انتظامیہ اور مالکان کو فیکٹری کا پیداواری عمل شروع کرنے اور مزدوروں کو بحال کرنے پر مجبور کردیا۔
نجکاری کے بعد مزدوروں کی سروس کی مد میں گولڈن ہینڈ شیک کی معاہدے کے تحت مزدوروں کو موجودہ سروس کو دس گنا بڑھا کر دینے کا وعدہ کےا گےا مگر اس پر عمل نہ ہوسکا۔ مزدور تحریک نے ایک بار پھر آواز اٹھائی جس کے نتیجے میں سکندر علی جتوئی نے فیکٹری کی کالونی کی زمین کو مزدوروں کے ہینڈ شیک کے عوض دینے کے لئے رضا مندی کا اظہار کےا اور کئی مزدوروں کو، جو کہ تحریک سے وابستہ تھے، انکا حق مل گےا۔مگر جن مزدوروں نے لیبر کورٹ میں کیس دائر کئے تھے ان کے لئے کڑی شرائط رکھ دی گئیں کہ جب تک وہ اپنے کیس نہیں جیت جاتے تب تک انہیں معاوضہ نہیں دےا جائے گا۔اسی طرح سالوں اپنے کیسز لڑتے لڑتے کئی مزدور اپنے کیسز ہار گئے تو کئی اس دنےا سے رخصت ہوگئے۔ان کے کیسز آج بھی عدالت کی الماریوں میں پڑے گرد میں اٹے ہوئے ہیں جن پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
اس وقت ذیل پاک سیمنٹ فیکٹری کی حالت یہ ہے کہ کچھ وقت تو محض پیداواری عمل دکھانے کے لئے فیکٹری کے کلن میں کچرے کو آگ لگا کر چمنی سے دھواں خارج کروایا جاتا رہا اور اسکے بعد دوسری فیکٹریوں سے تیار کلنکر منگوا کر انہیں مل ہاﺅس میں پیس کر سیمنٹ بنایا جاتا رہا۔
کبھی کبھار حکومت کی طرف سے سختی کے بعد پلانٹ کودو، تین مہینے کے لئے چلاےا جاتا ہے اور بعد میں نکال دےا جاتا ہے۔ انہیں تین مہینے سے ذیادہ کام نہیں کرنے دےا جاتا۔
آج بھی کئی بزرگ جنہوں نے ذیل پاک کے اچھے دن دیکھے تھے فیکٹری کی یہ حالت دیکھ کر فرت جذبات سے آنسو نہیں روک پاتے۔ اس فیکٹری کی بدولت ان کے بچے جوان ہوئے اور اسی فیکٹری سے ہزاروں ساتھیوں کی یادیں وابستہ ہیں۔ اب بزرگوں کا کہنا ہے کہ اگر1992 میں نواز حکومت نجکاری کا کھیل نا کھیلتی تو شاید آج بھی زیل پاک اپنے اسی عروج پر ہوتی۔ مگر حکمرانوں کو یہ بات کون سمجھائے کہ ہر مسئلے کا حل نجکاری نہیں ہوتا۔گورننس بہتر کرکے اور کرپشن ختم کرکے بھی ملک کا بھلا کےا جاسکتا ہے۔
دسمبر 2015
محمود غزنویز آف ماس کام
امپروئر فیلوئر
Labels: وقار احمد خان
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home