Hill Park Hyderabad
ہل پارک
وقار احمد خان
2K12/MC/117
ؒگنجو ٹکر کی ویران، چٹیل اور خشک پہاڑیوں میں جب انسان نہیں بستے تھے تو فیصلہ کےا گےا کہ یہاں صنعتیں اور کارخانے لگائے جائیں۔ اور جب فیکٹریاں بنیں تو لوگ بھی آگئے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ آکر یہاں آباد ہوتے رہے اور یہ علاقہ مختلف قوموں کا مسکن بنا۔ چنانچہ آبادی کو دیکھتے ہوئے حکومت کو خیال آیا کہ یہاں کوئی پارک ہونا چاہیے اور اسی لیے آٹو بھان روڈ سے متصل پہاڑی پر اک پارک بنایا گیا تھا جسے ہل پارک کا نام دےا گےا تھا۔ اپنے نام کی طرح یہ پارک انتہائی خوبصورت بناےا گےا تھا جہاں ہرے بھرے پودے، رنگ برنگے پھول اور سلیقے سے کٹی ہوئی گھاس لوگوں کو سکون کا احساس دلاتی تھی۔ اس پارک میں راہداریاں انتہائی سلیقے سے اور اعلی قسم کے پتھروں سے بنائی گئی تھیں۔ پارک کے بیچوں بیچ اک خوبصورت حوض بھی بناےا گےا تھا جسکا پانی جھلملاتے ہوئے آس پاس کے ماحول کو مزید خوبصورت بناتا تھا۔
اس پارک کو بچوں کے لئے خصوصی طور پر مختلف جھولوں سے مزین کےا گےا تھا جو کہ نا صرف بچوں کی تفریح کے لئے کارگر تھے بلکہ کئی ایسے جھولے بھی تھے جو بچوں کی جسمانی نشوو نما میں معاون ثابت ہوتے تھے۔
مگر اب یہاں کے حالات بلکل مختلف ہیں کیونکہ اب یہاں نہ پھول ہیں اور نہ وہ کیاریاں نہ پودے ہیں اور نا سلیقے سے کٹی ہوئی گھاس۔ہر طرف ویرانی ہے اور کسی ریگستان سا ماحول نظر آتا ہے۔ پارک کے بیچ موجود حوض کی اب صرف چار دیواری باقی ہے کیونکہ حوض بہت پہلے چوروں کے عتاب کا شکار ہو چکا ہے۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ جھولے تک لوگ اتار کے لے جاچکے ہیں او ر پارک کی راہداریوں میں استعمال ہونے والے پتھر اپنی جگہ موجود نہیں۔ پارک کو محفوظ رکھنے کے لئے جو آہنی جنگلہ بناےا گےا تھا وہ بھی موجود نہیں۔ غرض پارک اس وقت کسی قدیم شہر کا منظر پیش کرنے لگا ہے جو کہ صدیوں پہلے منوں مٹی تلے دفن ہوگےا ہو اور بس اسکے آثار باقی ہوں۔
اس پارک کی حفاظت کی ذمہ داری ورکرز ویلفیئر بورڈ کے پاس ہے جو پہلے ہی مزدوروں کے بچوں کے لیے آنے والے فنڈز جاری نھیں کر رہے بلکہ اک پارک جو یہاں کے لوگوں کی تفریح کا واحد ذریعہ تھا اسے ہی نا بخشا گےا بلکہ تباہی کے دہانے پر پہنچا دےا گےا۔ جب اس پارک کے بارے میں زرائع سے پوچھا گےا تو معلوم ہوا کہ ویلفیئر بورڈ کی جانب سے باقاعدہ اس پارک کے لیے چوکیدار اور مالی مقرر کیے گئے ہیں جو باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں مگر حکومت کے دوسرے اداروں کی طرح یہاں بھی چیک اینڈ بیلینس نا ہونے کی وجہ سے حالات تباہی کی طرف گامزن ہوئے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس پارک میں ہم میں سے بیشتر لوگوں کا بچپن گزرا ہے اور ہم آج بھی اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب یہاں صبح لوگ چہل قدمی کرنے آتے تھے، شام کے وقت بچے اس جگہ کو مزید پر رونق بناتے تھے جبکہ عید کے موقعے پر یہاں باقاعدہ چراغاں کےا جاتا تھا۔ اور یہاں کے لوگ اس سے بے انتہا خوش ہوتے تھے۔ لوگ اب بھی منتظر ہیں کہ حکومت اس پارک کی طرف توجہ دے اور اسے دوبارہ از سر نو تعمیر کرے تاکہ بچے اور بڑے سب ہی اپنے فارغ اوقات میں کچھ صحت مند سرگرمیوں میں شامل رہیں۔
دسمبر 2015
محمود غزنویز آف ماس کام
امپروئر فیلوئر
Labels: وقار احمد خان
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home