Low teachers ratio in private schools
پرائیوٹ ا سکولز اور کم تعلیم یافتہ اساتذہ
وقار احمد خان
2K12/MC/117
اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے کہ پرائیوٹ سکولوں کی تعلیم سرکاری سکولوں سے بہتر ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکول سے ہی تعلیم دلوائیں۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے اور اسکی اک وجہ یہاں کی غربت جبکہ دوسری وجہ سرکاری سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کا غیر معیاری نظام تعلیم ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے سکول اور کالجز موجود ہیں جہاں اساتذہ نہیں، اساتذہ ہیں تو طلبہ نہیں اور یہ دونوں ہوں تو اسکول کی عمارت ہی نہیں ملتی۔ جہاں اسکول موجود ہے تو وہاں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ بچوں کو گندی دریوںپر بٹھاےا جاتا ہے، لکھنے کے لیے دیوار پر کالا رنگ کرکے بلیک بورڈ بناےا جاتا ہے جبکہ طلبا کو دیکھ کر قطعا نہیں کہا جا سکتا کہ ےہ طالب علم ہیں۔
ان حالات میں اکثر سرکاری اداروں سے بچے غیر تعلیم یافتہ نکل جاتے ہیں اور محنت مزدوری انکا نصیب ٹھہرتی ہے۔ لکن اگر ہم پرائیوٹ اسکولوں کی طرف گہری نگاہ سے دیکھیں تو یہاں پر بھی باقاعدہ ایک مافیہ سر گرم نظر آتا ہے جن کا مقصد صرف پیسہ ہے اور کچھ نہیں۔ اس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال حیدرآباد سائٹ ایریا میں نظر آتی ہے جہاں ہر گلی اور محلے میں اک نیا اسکول نظر آتا ہے۔ جو باہر سے دیکھنے میں تو انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے مگر اندرونی صورتحال سرکاری اسکولوں سے بھی بدتر ہے۔ ان اسکولوں میں انگلش کے نام پر اچھی خاصی فیس وصول کی جاتی ہے مگر یہاں کی جو بات قابل اعتراض ہے وہ اسکول کا عملہ ہے جو پڑھا لکھا نہیں ہوتا۔ ان اسکولوں کے مالکان خود پرنسپل کے آفس میں براجمان آنے والے والدین پر اپنی شخصیت کا رعب جھاڑتے ہیں۔ حالانکہ در حقیقت وہ خود بھی پرائیوٹ طور پر بی۔اے یا مساوی ڈگریوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اساتذہ کی تعلیمی قابلیت کو اگر دیکھا جائے تو بمشکل انٹر پاس یا میٹرک پاس اساتذہ کوبھرتی کےا جاتا ہے۔ یہ اساتذہ دو سے تین ہزار روپے ماہانہ میں کام کرتے ہیں۔ اعلی تعلیم ےافتہ اساتذہ سے محض اس بنا پر گریز کےا جاتا ہے کہ ایسے اساتذہ ذیادہ تنخواہ کاتقاضا کرتے ہیں جس سے اسکول کی آمدن میں کمی واقع ہوتی ہے۔
اگر موازنہ کےا جائے تو نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے اسکول کسی بھی طور پر سرکاری اسکولوں سے کم نہیں بلکہ ذیادہ خطرناک ہیں۔ یہاں کی آبادی ذیادہ تر متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور ایسے میں ان اسکولوں کی ہیرا پھیری جہاں والدین کی مالی حالت پر اثر اندازہوتی ہے وہیں بچے کے مستقبل کے حوالے سے بھی انتہائی فکریہ ہے۔
ضرورت یس امر کی ہے کہ والدین اسکول کا انتخاب کرتے وقت اس بات کی تحقیق کریں کہ آےا انکا بچہ جس اسکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہے وہاں کے اساتذہ خود تعلیم یافتہ ہیں ےا نہیں۔
امپروئر اینڈ فیلوئر
محمود غزنویز آف ماس کام
Labels: وقار احمد خان
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home