Monday, December 21, 2015

Effects of cartoon characters on children

Are u sure this is not copied from  some other source?
آرٹیکل

 کارٹون کریکٹرز اور ان کے بچوں پر اثرات
 آرٹیکل تحریر: اجالا منصور

  یہ صحیح ہے کہ میڈیا کسی بھی معاشرے کے لیئے ایک زور آور تلوار کی حیثیت رکھتا ہے اور موجودہ دور میںکسی چیز کی تشہیر میںجس قدر مﺅثرکردار الیکٹرونک میڈیا نے اور پرنٹ میڈےا نے ادا کیا ہے کوئی ادارہ ایسی اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔

    مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بڑوں کی نسبت بچے میڈیا سے اثرات زیادہ اور جلد لیتے ہیں لہٰذا ٹی وی پالیسی بنانے والوں کیلیئے یہ ضروری ہے کہ وہ معیاری اور نہایت عمدہ پرو گرام اس انداز میں دکھائیں کے بچے ان سے اچھا تاثر لیں۔

   ٹی وی اسکرین پراچھے اور برے ہر طرح کے کردار دکھائے جاتے ہیں چونکہ بچوں کے ذہن نہ پختہ ہوتے ہیں اور شعوری طور پر فوراً اثر قبول کرتے ہیںاورافسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ منفی اثرات زیادہ جلدی قبول کر تے ہیں ۔اکثر چینلز پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ کہیں بھی بچوں کیلیئے درس وتدریس ،ذہنی نشونما اورجدید ٹیکنالوجی پرمثبت پروگرام پیش کرنے کے بجائے موسیقی اوررقص کے پروگرام زیادہ دکھائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اس حد تک غیر دلچسپ کہ بچے اپنا بیشتر وقت ایسے غیر ضروری پروگرامز،ڈرامے،فلمیں ،غیر اخلاقی کارٹونز اور واہیات رقص وموسیقی کے پروگرامز کو دیکھنے میں گزار دیتے ہیںجس کے اثرات ان کے ذہن اور ان کی شخصیت پر حاوی ہو جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ماردھاڑ،ایکشن سے بھرپور پروگرام دیکھنے سے صبروتحمل کا فروغ،مناسب تفریح مہیا نہ ہونے کی صورت میں حیلہ جوئی اور فریب کاری کے طریقوں میں اضافہ،نگاہوں کی کمزوری،تعلیم سے غفلت،ورزش وجسمانی حرکات سے محرومی،اعصابی کشیدگی،کاہلی وغیرہ وغیرہ۔

   بچوں کی ذہنی نشونما اور تعلیم و تربیت کیلیئے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جس میںکھیل کود ،سیروتفریح اور میڈیا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں خاص طور پر ٹی وی پر دکھا ئے جانے والے کارٹونزان کی توجہ کا اہم مرکز ہوتے ہیں اور ان کارٹونز میں دکھائے جانے والی عادتیں اور حرکتیں وہ جلد اپنا لیتے ہیں۔ہر دور میں ہی کارٹونز بچوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں جوکہ ان کے ذہنوں پر نقش کر جاتے ہیںمگر آج سے پہلے اس طرز کے کارٹونزبنائے جاتے تھے جوبچوں کی بہترین تربیت اور نشونما میںمدد کے حامل ہوتے تھے جیسے کے میکی ماﺅس، ریسکیو ڈی اے گو اور ڈورا جس میں بچوں کو اچھے اخلاق ،ہمدردی،مدد کرناجیسی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی اس کے برعکس آج کل ایسے کارٹونز بنائے جا رہے ہیں جو بچوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں،جن میں ٹام اینڈ جیری ،بین ٹین،اوگی،چھوٹا بھیم اور ڈوریمون وغیرہ شامل ہیں۔

آج کل بچوں کے سب سے پسندیدہ کارٹون ڈوریمون ہیں مگر یہ کارٹون بچوں کی دماغی صلاحیت کو انتہائی کمزورکر رہے ہیں ،اس کارٹون میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک بچہ نوبیتا ہمیشہ نااہل رہتا ہے ماں باپ سے جھوٹ بولتا ہے اور کچھ کرنے کے بجائے جادوئی چیزوں کے ذریعے اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتا ہے اور اپنی صلاحیتوںپر ہر وقت روتا رہتا ہے،اوگی کارٹون جس میں اس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے جو کسی بھی قوم کی اور تہذیب کی عکاسی نہیں کرتی اور بچوں کے زبان و بیان کو بگاڑنے میں آج کل سرفہرست ہے،ٹام اینڈ جیری اور بین ٹین میں مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ جیسی چیزیںبہت حد تک دکھائی جاتی ہیں جو بچوں کے اندر اشتعال پیدا کرنے کا بھی ایک سبب ہیں۔

   جہاں تک بات زبان و بیان کی ہے اگر ہم غور کریں تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں جتنے بھی کارٹون چینلز ہیں سب ہی ہندی زبان میں ڈبڈ ہوتے ہیں، نکلوڈیا،پوگو،کارٹون نیٹورک یہ سب چینلز ہندی زبان میں ہیں یہ بھی زبان و بیان کی تبدیلی میں منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کیلئیے پیش کیئے جانے والے کارٹونز بہت حساس اور اہم ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی زیادہ تر توجہ اسی طرف ہوتی ہے اور اگر یہ ہی کارٹونز غیر معیاری ہوں گے تو ان پر تنقید اور نکتہ چینی بھی اس قدر ہی ہو گی۔بلخصوص والدین کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کارٹونز کے منفی اثرات کے پیش نظربچوں کے اندر غصہ،بدتمیزی،ضداور غیر اخلاقی جیسی عادتیں اجاگر ہو جاتی ہیں ۔بچے اپنے والدین سے وہ ہی چیزیں مانگنے اور خریدنے کی ضد اور بحث کرتے ہیںجن پر ان کے پسندیدہ کارٹون کریکٹر بنے ہوئے ہوتے ہیںپھر چاہے ان کے والدین وہ چیز خریدنے کی حیثیت رکھتے ہوں یا نہیں مگر بچے اس چیز کو حاصل کرنے کی ضد میں والدین سے کافی حد تک بد سلوکی کر بیٹھتے ہیں۔

اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو یہ مسئلہ سنگین صورتحال کرتا جا رہا ہے،پاکستان میں کوئی ایسا کارٹون چینل نہیں جو یہاں سے پروڈیوز ہو اور پاکستان کی ہی ثقافت کو بہترین طریقے سے بچوں کے
 سامنے پیش کرے۔ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں پڑوسی ممالک سے کارٹون چینلز کو سیٹلائٹ پر دکھانے کی اجازت لیتے ہیں۔یہ ظاہری بات ہے کہ ہر ممالک اپنی ہی ثقافت کو اجاگر کرے گا اور بچے تو ہوتے ہی کچے دماغ کے مالک ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ان کو کم عمری میں ہی صحیح اور معیاری راستوں کی گامزن کیا جائے۔ہماری حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ ایسے چینلز تشکیل دیں جو ہماری ثقافت کی عکاسی کی مددگار بنیں کیونکہ یہ بچے ہی ہمارے ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ 
 دسمبر
2015


Labels: ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home