Monday, December 21, 2015

Interview of Yousif Pardesi

مجھے پڑھانے سے پیار ہے اور یہ میرے خون میں شامل ہے ۔ پروفیسرمحمد یوسف پردیسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرمحمد یوسف پردیسی سے انٹرویو
انٹرویو: اجالا منصور
  ٹعارف: پروفیسر محمد یوسف پردیسی انٹرنیشنل افیرز کے ڈائیریکٹر اور آرٹز فیکلٹی بلڈنگ کے ایڈمن ہونے کے ساتھ ساتھ پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے لیکچرر بھی ہیں ۔پروفیسر یوسف نے ۲۷۹۱ءمیں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے آرٹس میں بیچلر کیا ،۲۷۹۱ءمیںیونیورسٹی آف سندھ سے ہی پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے ہی پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا، ۴۷۹۱ءمیں یونیورسٹی آف سندھ سے ماسٹرز کیا،۲۸۹۱ءمیں امریکہ کی یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے ماسٹرز آف سوشل سائنسز کیا،۷۸۹۱ءمیں اسی یونیورسٹی سے ہی ماسٹرز آف پبلک ایڈمنسٹریشن کیا،۱۹۹۱ءمیں امریکہ کی ورجنیا کامن ہیلتھ یونیورسٹی سے ڈاکٹوریل ڈگری پبلک ایڈمنسٹریشن کی بعد میں بیورو آف اسٹیگز میں بطور ایڈوائیزر ہیں۔

 س: اپنی زندگی کا وہ یادگار لمحہ بتائیے جس نے آپ پر گہرا اثر ڈالا ہو؟
ج: یہ ۲۸۹۱ءکی بات ہے جب میں پٹبرگز جو امریکہ کی پینسلوینیا اسٹیٹ میںہے میں اپنے ایک عزیز دوست کو ایئرپورٹ لینے جا رہا تھا جو کہ ابروٹ سے آرہا تھا،اس دن بہت تیز بارش ہو رہی تھی جو کے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اس بارش میں میں اپنی ڈرائیونگ پر کنٹرول نہیں رکھ سکا اور میری گاڑی جا کر ایک درخت سے ٹکرا گئی ،وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے خوفناک لمحہ تھا مگر اللہ پاک کا مجھ پر بہت کرم ہے کہ اس مالک نے میری زندگی کو محفوظ رکھا۔

س : آپ کی زندگی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی؟
ج : ایجوکیشن میں ہونے کی ناطے میں نے اور پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن شیخ نے پبلک ایڈمیسٹریشن کی ایک عمارت قائم کی جس کا میں چیئر مین بنا اور جہاں میں نے ۵۱ سال گزارے ۔۹۸۹۱ءمیں میں نے یونیورسٹی آف سندھ کے پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں بیچلرز ڈگری پروگرام شروع کیااب جسکا سلسلہ پی ایچ ڈی لیول تک ہے،اور میں امید کرتا ہوں کہ میرے شاگرد اس ڈپارٹمنٹ کو کامیابی سے جاری رکھیں گے۔

س: کیا وجہ ہے کہ ریٹائیرمنٹ کے بعد بھی آپ کی تدریس سے دلچسپی ختم نہیں ہوئی ، آپ پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں پڑھارہے ہیں؟
ج :مجھے پڑھانے سے پیار ہے اور پڑھانا ہی میری اصل پہچان ہے،مجھے کافی یونیورسٹیز سے پڑھانے کی آفرز آئی ہیں مگر میں نے ان آفرز کو قبول نہیں کیا اور ان کے مقابلے میں سندھ یونیورسٹی میں ہی پڑھانے کو ترجیح دیا۔۰۰۰۲ءمیں مجھے سندھ یونیورسٹس کا کنٹرولر آف ایکزیمز بھی بنایا گیااور اس کے ساتھ ساتھ مجھے سندھ یونیورسٹی کے ٹراینسپورٹز کا انچارج بھی مقرر کیا گیااور اب میں اسٹیگز کے بیورو کا ایڈوائیزر ہوں۔

س : اپنے سماجی کاموں کے بارے میں کچھ بتائیے ؟
ج :میںاسٹیگزکی کمیونیٹی میںکام کرتا ہوں،جہاںہم لیکچرز، ڈیبیٹز، نعت کے مقابلے، اسائینمینٹز،پریزنٹیشنزوغیرہ منظم کرتے ہیں۔ہم اپنے ہر طالبعلم کو سکھاتے ہیں کہ قانون کو کیسے فالو کیا جائے۔ہر سال تقریباً ۰۰۲۱ کے قریب لوگوں کی وفات روڈ حادثات کی وجہ سے ہوتی ہے ،تو اس کے لیئے ہم روڈ سیفٹی پر لیکچرز منظم کرتے ہیں جس میں ہم احتیاط سے ڈرائیونگ کرنے اور اپنی زندگی کی حفاظت کرنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہم کمیونیٹی کی ترقی اور بچوں کے شعور کے متعلق پروگرامز منظم کرنے کے ساتھ ساتھ قانونی بیداری پر بھی لیکچرز دیتے ہیں،جس کا مقصد طلبہ کی ذمہ داریوںپر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

س :جب مایوسی آپ کی زندگی میں ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب:جب میں کوئی برا منظم طریقہ دیکھتا ہوں تو بہت مایوس ہوتا ہوں،جب میں دیکھتا ہوں لوگوں کو بنا کوئی توجہ دیئے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تو میں بہت مایوس ہوجاتا ہوںیہ سب چیزیں دیکھ کر۔ امریکہ میں کبھی بھی اپنی کلاس میں دیر سے نہیں جاتے تھے وہ وقت کے پابند تھے ۔ہمارا ملک بھی ترقی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے اگر ہم وقت کی پابندی کریں اور قواعدوضوابط کے مطابق چلیں۔

س :معاشرے میں بنیادی اوزار کیا ہونے چاہیئے؟اور اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج :میری رائے کے مطابق ہمارا معاشرہ آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف زیادہ آرہا ہے،پاکستان میں آج بھی نہ ہی لوگوں کے رویے درست ہیں نہ ہی طالبعلموں میں کوئی تمیز ہے۔

س :آرٹس فیکلٹی میں آپ کا کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
ج :میں نے پتال سے اپنے کام کا آغاز کیا ،شروع میں میں کلرک تھا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی میں نے اپنے ماسٹرز ڈگری پروگرام کو جاری رکھا۔مجھے تعلیم کی لیکچرر شپ ملی اور کراچی میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر سیکیوریٹی فورس کے طور پر بھی کام کیا۔وہاں میں پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ میں لیکچر بھی تھا۔

س :سرکاری قوانین میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں؟
ج :جی بلکل آپ نے سنا ہوگا”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“تو کوئی بھی قواعد یا کوئی بھی ضوابط جہ حکومت کی جانب سے بنتے ہیںان پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔وہ کسی بھی ملک پر حکمرانی کرنے کے لیئے اہم ہیں۔تبدیلی تب ہی لائی جا سکتی ہے جب ہم نفاذ لاتے ہیں اورامکانات بھی تب ہی کیے جا سکتے ہیں جب ہم نفاذ کریں۔

س :ڈائیریکٹر اور انچارج ہونے کے علاوہ کیا آپ کوئی بھی دوسرا کام کرنے کو تیار ہیں؟
ج :میں اینٹرنیشنل افئیرز کا ڈائیریکٹر ہوں اورآرٹز فیکلٹی بلڈنگ کا ایڈمنسٹریشن انچارج بھی ان سب کے علاوہ میں پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں ۴ کورسز بھی پڑھاتا ہوں اور پڑھانا ہی میرا اصل شعبہ ہے اور میری پہچان بھی۔پہلے میں پڑھانے پر توبہ دیتا ہوں باقی بعد میں کسی دوسرے کاموں پر”مجھے پڑھانے سے محبت ہے اور پڑھانا میرے خون میں شامل ہے“۔

س :ہماری نوجوان نسل کے لیئے کوئی پیغام؟
ج :میرا پورے معاشرے اور ہماری نوجوان نسل کو بس یہ ہی پیغام ہے کہ پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ ہمیشہ کام کریں بغیر رشوت لیئے،آپ کا دل ہر آپ کی روح دونوں اندر سے صاف ہونے چاہیئے ا”آج کا کام کبھی کل پر مت ڈالنا“،کم بولیں اور خلوص سے کام ذیادہ کریں،اس بات میں کوئی شک
 نہیں کی جب کام پورے خلوص اور ایمانداری سے ہوگا تبھی ملک ترقی کرے گا۔
 دسمبر ۵۱۰۲ع
 (نوٹ: انٹریو میں کم سے کم بارہ سوالات رکھیں)

Labels: ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home