Monday, December 7, 2015

سندس نے پرانی سندس کو کہیں دفن کردیا

          سندس قریشی
               وقاراحمد خان
2K12/MC/117

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو صبح سے شام تک ہمیں مختلف چہرے چلتے پھرتے نظر آتے ہیںاور ہر شخص کسی نہ کسی مجبوری ، خواہش یا ضروری کام کے تحت یہاں سے وہاں بھاگ دوڑ کرتا رہتا ہے لیکن زندگی کی اس بھاگ دوڑ میں کچھ لوگ اس طرح مگن ہوتے ہیں کہ پھر انکی کوئی نا کوئی ایسی خوبی سامنے آتی ہے کہ ہم ناچاہتے ہوئے بھی اسے نظرانداز نہیں کرپاتے۔

     اسی بھاگ دوڑ کے دوران ایک دن میری ملاقات سندس سے ہوئی وہ یونیورسٹی میں پریزینٹیشن کے سلسلے میں مجھ سے بات کرنے آئی تھی ۔اور یہیں سے ہماری دوستی کا آغاز ہوا۔ شروع شروع میں وہ ہنسی مذاق اور کینٹین سے کچھ نا کچھ کھانے والوں کی لسٹ میں شامل رہی۔

     سندس کا تعلق متوسط طبقے کے خاندان سے ہے جہاں آج تک کوئی میٹرک سے آگے نہ پڑھ پایا ہے۔ سندس نے اپنے کیریئرکا آغازبطور مدرس کیااور اپنی استاد مس نوشین کی رہنمائی میں یونیورسٹیمیں داخلہ لیا۔میڈیا کی فیلڈ میں آنا سندس کی زندگی بدلنے کے مترادف تھا۔ ریڈیو سمیت مختلف این -جی-اوز کے ساتھ ورکشاپزاور مختلف سرگرمیوں نے انکی زندگی بدل ڈالی۔

    اور اب سندس وہ لڑکی نہیں جسے میں یونیورسٹی کے پہلے سال میں جانتا تھا۔ آج کی سندس نے پرانی سندس کو کہیں دفن
 کردیا ہے۔ کیوںکہ میں اسے سندس قریشی کے بجائے سندس بھائی بلاتا ہوں۔ آج کی سندس میں وہ نرگیسیت ہے اور نہ ہی صنف نازک کی وہ ادائیں، وہ بس ایک چلتا پھرتا پتلا ہے جو صبح سے شام تک اپنے اور اپنے گھروالوں کے حالات بدلنے کی تگ ودو میں لگی رہتی ہے۔ صبح یونیورسٹی، پھر ریڈیو پھر مختلف اخبارات کی نمائندگی حتی کہ انشورینس پالیسی کے لیے کام کرنا اس کی لسٹ میں شامل ہیں۔

    اب ذرا سندس کی کچھ عادات کی بات کی جائے تو میرے خیال سے سندس کو کسی بھی طرح سے خواتین کی کیٹیگری میں رکھنا سراسر زیادتی ہے۔جو زندگی وہ گزارتی ہے وہ کسی خاتون کے لیے گزارنا انتہائی مشکل کام ہے۔ طبعیت سے سندس نرم دل واقع ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر کسی کے کام بھی آتی ہے۔ اگر کوئی اپنا مسئلہ کہہ دے تو ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے ،اور اگر کوئی دشمن بن جائے تو زمانہ اِدھر سے ادھر ہو جائے مگر سندس اس شخص کو ہرگز نہیں چھورٹی ۔ ضدی اتنی کہ ایک بار اگر ضد پر آجائے تو بیشک سامنے کوئی بھی آجائے اسے پرواہ نہیں،بنانے پر آئے تو ایسا بنا کر رکھتی ہے کہ مثال نہیں،اور بگاڑنے پر آئے تو تمام تر کشتیاں جلا کر راکھ کردے۔

    کہا جاتا ہے کہ پہلے تولو پھر بولومگر یہاں سندس پہلے بولتی ہے پھر تولتی ہے۔سوچنا تو اس کی لغت میں شامل ہی نہیں۔وہ ہمیشہ دل کی سنتی ہے دماغ تو گھر پر رکھتی ہے۔

    سندس نے اپنی زندگی میں غربت ذیادہ دیکھی ہے مگر اسکی سوچ غریبوں والی نہیں ہیں۔وہ کچھ کرنا چاہتی ہے اور اسی تلاش میں دن بھر محنت کرتی ہے۔دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا،کھلانا پلانا اسکی اہم ضرورت ہے ۔کسی دوسرے کی ضرورت کو پوری کرنا وہ اپنا فرض سمجھتی ہے۔دوستوں کی محفلوں میں رنگ بھرتی ہے۔ہر وقت ہنسنا، کھلکھلانا، شوخ و چنچل حرکتیں اسکی ذات کا حصہ ہیں مگر حقیقت میں وہ حساس دل کی مالک ہے۔ 

اس کے کچھ خواب ہیں جو اب تک ریزہ ریزہ ہیں اور انہیں یکجا کرنے کے لیے وہ ہر وقت کوشش کرتی رہتی ہے۔ کبھی کبھار تھک جاتی ہے تو مخصوس دوستوں سے دل کا حال کہتی ہےاور اگلے دن پھر وہی سندس بن جاتی ہے۔ میں آج تک اس لڑکی کو سمجھ نہیں پاےا کہ آخر یہ کس جہان سے آئی ہے اور جانے کب اسکی تلاش ختم ہوگی۔۔۔ 


Labels: , ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home