Peace and Hyderabad
This is more like article-feature, not investigative report/
وسیم اللہ 2k12/MC/122
انویسٹی گیٹیو ¿ رپورٹ: امن اور حیدرآباد
وسیم اللہ خان
شہرِعزیز اپنی چند خصوصیات کےلئے مشہور ہے۔ایک حیدرآباد کی قدیم تاریخ دوسری یہاں کی شام اور اس میں ٹھندی ہوائیں اور تیسرا یہاں کا امن جو شروع سے قائم و دائم ہے۔گویا کہ حیدرآباد کے نام کے ساتھامن کا لفظ جڑا ہوا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حیدرّباد وقتا ´ فوقتا ´ بڑے بڑے ہنگامے اور فسادات ہوئے جسکے بہت دیرپا اور مضر اثرات مرتب ہوئے۔لیکن وہ حالات جیسے آندھی کی مانند تھے۔یہاں آندھی رکی اور یہاں سب کچھ ساکت ہو گیا۔
دراصل صدیوں سے حیدرآباد میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد تھے لیکن کبھی اس بنیاد پر تقسیم نہیں ہوئے ۔ تصوف کو ہندو بھی یوں ہی مانا کرتے تھے جیس یہاں کے مسلمان مانتے ہیں۔لیکن آزادی ک ساتھ یہاں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔اکثر ہندو یہاں سے ہجرت کر گئے۔او مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد یہاں آکر بس گئی۔اسکے کچھ عرصے بعد ارتقاءکی منازل طے کرتے ہوئے فرقہ واریت اور لسانیت نے جڑیں پکڑنا شروع کیں۔
پہلی بار حیدرّباد میں 1973 میں گوہر ایوب اور نواب مظفر کی تحریک اور لسانی بل کے مسئلے نے بد امنی کی شکل اختیار کی اور لسانیات کی بنیاد پر یہاں فسادات ہوئے۔لیکن بعدازاں فضاءنسبتا ´ بہتر ہوگئی۔ 1977 میں جب جنرل ضیاءالحق نے جمہوریت کو معزول کیا اور اسلامی شریعت کے نام پر عوام کو مسلمان اور وشلسٹ چھڑوں میں تقسیم کیا گیاتو اسکے اثرات حیدرآباد پر بھی پڑے۔لیکن پھر بھی یہاں کے شہری خون ریزی اور قتل و غارت گری سے نا واقف تھے۔
جب 1984میں سلام تیلی نامی بدمعاش قتل ہوا تو اسکا خوف پورے شہر پر طاری تھا۔لیکن سکے بعد کچھ ایسی تند ہوائیں چلیں کہ حیدرّباد کو لاشوں کے ڈھیر بھی دیکھنے پڑے اور لوگ اسکے بیچوں بیچ گزرتے تھے۔ 1986 میں پٹھان مہاجر فسادات اور 1988 میں مہاجر سندھی فسادات نے حیدرآباد کی معیشت کو تباہ کر دیا۔اور یہاں کی عوام قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر بٹ گئی۔ حیدرآباد سے پر امن کا خطاب بھی چھن گیا اور کل سندھ کی تجارتی منڈی بھی چھن گئی۔سکھر وغیرہ کی تچارت پنجاب سے ہونے لگی اور دیگر شہروں کی براہِراست کراچی سے ہونے لگی۔
ایک وقت میں حیدرآباد گلاب کے پھولوں کے لئے مشہور تھا لیکن اب جب پھولوں کی بات کی جاتی ہے تو حیدرآباد کا نام کہیں بھی تہںآتا۔سیاسی مفادات اور اقتدار کی لالچ میں حیدرآباد ضلعے کو کئی ٹکڑوں میں توڑ دیا گیا اور پھول مٹیاری میں ہی رہ گئے۔لیکن اس پھول جیسے شہر عزیز پر ظلم کی حد یہاں تمام نہیں ہوئی بلکہ یہاں سیاسی جماعتوں نے خود کو مستحکم کرنے کے لئے تخریب کاروں اور جرائم پیشہ لوگوں کو
سہارا دے کر انکو استعمال کرنا شروع کیا۔اس میں ان لوگوں کا بھی مفاد تھا اور ان جماعتوں ک بھی۔ اور کئی سالوں تک یہ سلسلہ رہا۔سال2015 میں یہاں ایک ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی۔اسے قیادت کی اہلیت کہیے یا عوام کی خوش بختی لیکن نظام چلایا گیا کئی ایسے سو مجرجوں کا شہر سے صفایا ر دیا گیا جو دن میں گرفتاری دیا کرتے اور رات کو گھروں میں آرام کرتے۔ ایسے کئی عناصر کو بے نقاب بھی کیا گیا جو شہر کے امن کو خراب کرتے تھے۔گاڑیاں اور وبائیل چھیننا ٬ ڈکیتی کرنا قتل و غارت گری جن کا مغمول تھا او رآج حیدرآباد کا ہر شہری سکون کا سانس لے رہا ہے۔
محمود غزنوی آف ماس کام
امپروئر فیلیوئر
دسمبر 2015
Labels: وسیم اللہ خان
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home