Saturday, December 26, 2015

Proifle of Dr Syed Khalid Hussain


ڈاکٹر سید محمد خالد حسین
پروفائیل: سندس قریشی
سید محمد خالد ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ 29 جولائی 1957 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آباو ¾اجداد کا تعلق انڈیا کی ریاست پٹیالہ کے ایک چھوٹے سے شہر نارنول سے تھا۔تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ بھی ہندوستان کے مہاجرین کے ساتھ پاکستان آکر آباد ہوا۔

 اوائل میں انہیں کافی دشواریاں پیش آئیں۔ آپ نے اپنی کم عمری میں ہی غربت کا سامنا کیا مگر پڑھنے کی لگن نے انہیں غربت کے آگے ہار نہیں ماننے دیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاڑکانہ میں ہی حاصل کی اور مزید تعلیم کی خواہش انہیں حیدرآباد لے آئی۔

   حیدرآباد میں قیام آسان نہ تھا اور خاص کر جب ان کے پاس اخراجات کے لیے کوئی ذریعہ بھی نہ تھا۔ یہاں آکر مسلم کالج میں داخلہ لیا اور ٹیوشنز کے ذریعے اپنے حالات سے مقابلہ کےا۔کبھی میڈیکل اسٹور پر تو کبھی بطور سیلزمین بھی کام کرتے رہے۔ 

   1980ءکی دہائی میں انٹر پاس کر کے LUMHS میں داخلہ لیا اس وقت    LMCسندھ یونیورسٹی کا کالج تھا جہاں طب کی تعلیم دی جاتی تھی،یہ دور انکے لیے کڑا امتحان رہاکیونکہ دن رات کی پڑھائی کی وجہ سے مختصر اوقات میں کام کرنا دشوار تھا لیکن ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔اس لیے پڑھائی کا بھی حرج ہواجس کی وجہ سے کئی پیپرز میں انہیں ناکامی بھی ہوئی مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دن رات محنت کرتے رہے۔

   اپنی ناکامی کو انہوں نے کامیابی کی طرف قدم سمجھا اور 5 سال کی انتھک محنت سے انہوں نے ایم بی بی ایس پاس کیا۔ یہ 1988 ءکا دور تھا جس کے بعد ہاﺅس جاب کے دوران وہ عملی طور پر اپنے پیشے سے وابستہ ہوئے ۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو انہوں نے نیوروسرجن بننے کے لیے تگ ودو شروع کی جس میں کامیابی نے ان کے قدم چومے۔

    نیوروسرجن بننے کے بعد انکی پہلی پوسٹنگ کراچی کے جناح ہسپتال میں ہوئی اور اس کے بعد کراچی کے ہی مختلف ہسپتالوں میں خدمات انجام دیے۔ اس کے بعد ان کا تبادلہ سول ہسپتال سکھر میں کیا گیا جہاں اپنی انتھک محنت اور کاوشوں سے پہچانے جانے لگے۔ سندھ میں ان کا تبادلہ حیدرآباد میں ہوا جہاں انہیں بطورمیڈیکو لیگل آفیسر تعینات کیا گیا۔ 

پانچ سال کے عرصے میں انہیں کئی اعزازات حاصل ہوئے جن میں ان کی تعلیمی کارکردگی قابل ذکر ہے۔اپنی سروس کے دوران ہی انہوں نے مختلف شعبوں میں کام کےا جس کے بعد انہیں آر ایم او(Resident medical officer) پر ترقی دی گئی اور موجودہ دور میں بھی وہ اسی عہدے پر حیدرآباد سول ہسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

   اپنے خاندان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر غریبوں کی مدد کروں مگر انہیں یہ افسوس ہمیشہ رہاکہ وہ مجھے سپورٹ نہ کرسکے۔مجھے خوشی ہے کہ ان کے آخری ایام میں وہ آغا خان ہسپتال میں زیر علاج رہے جہاں ڈاکٹرز ان کا بے حد خےال رکھتے تھے جسے دیکھ کر والد صاحب فرحت جذبات سے آبدیدہ ہوئے۔

ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ ذندگی میں میں نے جو کچھ پاےا وہ اپنے والدین کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے۔میں نے ان کی خدمت کی اور تب تک کرتا رہا جب تک میرے دل کو اطمینان نہ ہوا۔ طلبہ کی ہمیشہ ہی سے وہ حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ طلبہ جوان ہوتے ہیں اور ان میں جوش و ولولہ ہوتا ہے بس انہیں ایک تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر صحیح سے مل جائے تو یہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔
د سمبر 2015
 ماس کام کے محمود غزنوی
Imrover /Failure
 Sundas Qureshi 



Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home