Sunday, December 6, 2015

Housing schemes of Hyderabad

Its two short. needs attribution, quotes and expert opinion etc 
وسیم اللہ: 2k12/MC/ 122 
انویسٹی گیٹیو ¿ رپورٹ:     حیدرآباد کی ہاوسنگ اسکیمیں

  ترقی یافتہ ممالک میں ہاو ¿سنگ اسکیموںکے لئے چٹیل ٬بنجر اور پہاڑی علاقوں کا انتخاب کیا جاتا ہے لیکن ہمارے اسکے با الکل برعکس شہر کے بیچوں بیچ ٬ شاہراہوں سے متصل اور یا پھر زرعی زمینوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔اسکی وجہ یا تو آبادی اور کھدائی وغیرہ میں آسانی ہے اور یا پھر وہاں تک تعمیری سامان کی آسان رسائی ہے۔ لیکن اسکے کئی نقصانات ہیں ۔ شہر کے بیچ آبادی سے ٹریفک کے مسائل بڑھتے ہیں اور شاہراہوں کے قریب آبادی ہمیشہ پر خطر ہوتی ہے لیکن زرعی زمینوں پر آبادی تو پوری قوم کا استحصال ہے۔افراد کی تعداد فڑھتی ہے تو اناج کی کھپت بڑھتی ہے لیکن ہمارے پاس اسکے لئے زمین گھٹتی ہی جا رہی ہے اور یہی نہیں بلکہ جاگلات کے زرعی زمینوں کا ختم "گلوبل وارمنگ" کا سبب بھی ہے۔ 

ہاو ¿سنگ اسکیموں کے بعد رہی سہی کثر سرمایا کاروں نے پوری کر دی کہ فیکٹریاں اور خصوصا ´ پولٹری فارم بھی آج کل دیہاتوں میں زرعی زمینوں کے بیچ لگائے جا رہے ہیں۔اس ضمن میں افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ پچھلی دہائی میں جمہوریت کے نئے جنم سے قبل بلدیہ کی جانب سے کئی سو ہاو ¿سنگ اسکیموں کی اجازت دی گئی لیکن یہ جانچ پڑتال نہیں کی گئی کہ آیا اسکی نکاسی کا کیا انتظام ہے اور شہر ی ساخت پر اس سے کیا اثر پڑیگا۔تشوشناک بات ہے کہ زرعی زمین پر آبادی ہو تو وہ وقت کے دھنستی رہتی ہے ۔ ایک رپورٹ کے مطابق حیدرآباد کی زیادہ تر آبادی خصوصا ´ لطیف آباد سال میں تقریبا ´ آدھا انچ دھنستا ہے۔

  زرعی زمینوں پر آباد کاری کی شروعات 1960 کی دہائی میں ہو گئی تھ جب میر فتح تالپور نے اپنی جائیداد کا ایک بڑا حصہ حکومت کو وقف کر دیا تھا٬ اسی پر موجودہ لطیف آباد بسا ہوا ہے۔ لیکن اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں تک پانی کی رسائی نہ ہونا اور زمین میں نمک کا تناسب زیادہ ہونا زرخیزی میں رکاوٹ تھے لیکن زرخیز زرعی زمیں پر آبادکاری ایک جرم تھا جس کی ابتداء1980ءکی دہائی میں قاضی محمد عاظم نے کی تھی جو حیدرآباد بلدیہ کے پہلے کمشنر قاضی محمد اکبر کے بھائی تھے۔

دریائے سندھ کے کچے حفاظتی بندھ کے اندرونی حدود کا افی علاقہ ان ہاو ¿سنگ اسکیموں کی نذر ہو چکا ہے۔حیدرآباد بائی پاس کے ساتھ ساتھ پوری پٹی پر ان اسکیموں کے مافیا کی کڑی نظر ے۔اسی عتاب کی دوسری شاخ کینٹ ایریا سے گوٹھ جام حان شورو تک کی پٹی ہے۔ اور تیسری شاخ بھٹائی ہسپتال سے لے کر ہالاناکہ تک ہے۔ان تینوں پٹیوں پر آباد کاری تیزی سے جاری ہے۔ان ہاو ¿سنگ اسکیموں کی شروعات قاسم آباد سے ہئی تھی اور اور سب سے پہلا متاثرہ علاقہ حیدرآباد سندھ میوزیم کے سامنے سے گزرنے والا نیشنل ہائی وے تھا۔جسکے قریب دو سو گز کے اندر آبادی کرنا غیر قانونی ہوتا ہے لیکن اسکے کنارے میمن سوسائٹی ٬ سندھی مسلم سوسائٹی اور بعد ازاں نیو احدت کالونی آباد کرکے اس قانون کو پامال کیا گیا۔اسی 80کی دہائی میں بھٹائی ٹاو ¿ن٬ سٹیزن کالونی ٬ بھٹائی نگر اور گلستانِ سجاد وغیرہ بھی آباد ہوئے باہر کی اس پٹی کو بطورِ دیوار پھیلا کر اندر کے علاقے کو بھی دبوچا گیا اور پھر مزید اتنا پھیلایا کہ ان تین شاخوں پر اب بھی مستقل کام ہو رہا ہے۔اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوم کے اس گھاٹے میں جو عناصر کوشاں تھے انکا تعلق یا تو حکومت سے تھا یا سیاست سے۔لہذا جیسے تیسے کرکے سرکاری اجازت نامے وصول کےے اور شہرِعزیز کی ساخت کو کریدتے چلے گئے۔

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home