Saturday, December 26, 2015

Interview of engineer Sheeraz Channa

In interview there are no Question umbers. 
Name: Amjad Ali
Roll # 2k12/MC/13

انٹرویو
انجینئر شیراز علی چنا
امجد علی
انجینئر شیراز علی چنا حیدر آباد کے علاقے لطیف آباد میں رہائش پزیر ہیں آپ کی پیدائش سندھ کے مشہور شہر سہون میں ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری تعلیم سہون سے ہی حاصل کی پھر آپ کے والد کا تبادلہ حیدر آباد میں ہوا یہاں آکر آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور کیڈٹ کالج پٹارو سے میٹرک اور پھر انٹر کا امتحان پاس کیا اور پھر مہران یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی آپ نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ جرمنی میں گزاراسی وجہ سے جرمنی اور پاکستان کے نظام تعلیم کے حوالے سے چند سوالات کیے جن کا جواب یہ ہیں۔

سوال نمبر1۔ جرمنی اور پاکستان کے نظام تعلیم میں کتنا فرق ہے؟
جواب  جرمنی اور پاکستا کے نظام تعلیم میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین اور آسمان میں کالے اور گورے میں اور امیر اور غریب میں فرق ہے۔ ہمارا تعلیم نظام ابھی تک وہی فرسودا نظام ہے ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی جدت دیکھنے کو نہیں ملی جو تعلیم ہم نے آپ اسکول کے زمانے مین پڑھی تھی وہ ہی نساب ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں دنیا تعلیم کے معاملے میں بہت آگے نکل گئی ہے اور ہم ابھی بھی وہیں 50سال پرانے نظام میں پھنسے ہیں۔

سوال نمبر2۔جرمنی میں تعلیم اور اسکول کا نظام افعال اور فرانس جرمنی میں اسکولوں کے ذمہ دار کون ہیں؟
جواب: اسکول ایک قومی معملہ ہے اسی وجہ سے اسکول کا نظام قانونی سطح پر کنٹرول نہیں کیا جاسکتا وفاقی صوبوں کے وزارت تعلیم کے ادارے جو نہ صرف تعلیمی عملے کے لیے بلکہ نصاب کے بھی ذمہ دار ہیں یہ ادارے اسکول انتطامیہ کے ساتھ تعلیمی نکات پر مل کر کام کرتے ہیں یعنی جوائنٹ سسٹم کے تحت اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں اسکولوں کے عملے کے اخراجات اور دیگر مواد مثلاً کنسٹریکشن ڈزائن، انٹر ٹینمنٹ، صفائی ، کینٹین ، تنظیم و تدریسی سامان بلیک بورڈ فرنیچر نصابی کتب اور انسائکلو پیڈیا ، ٹیلی فون اورپروجیکٹ دیگر آلات کا بلدیہ ذمہ دار ہوتا ہے ۔اسکول کے نظام کو مندرجہ ذیل کٹاگیری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پرائمری اسکول تمام بچے ابتدائی تعلیم کا آغاز پرائمری اسکول سے کرتے ہیں صبح آٹھ سے دن بارہ بجے تک کلاسس ہوتی ہیں۔سیکنڈری اسکول جرمنی میں سیکنڈری اسکول سے مرادجونیئر ہائی اسکول یا ہائی اسکول جہاں بچے پانچویں سے دسویں کلاس تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
کالج سسٹم میں فرسٹ ایئر سے تھرڈ ایئر تک کلاسس ہوتی ہیں اس کے بعد طالب علم اپنے مستقبل کو مد رنظر رکھتے ہوئے یونی ورسٹی میں قدم رکھتے ہیں۔

سوال نمبر3۔ لازمی تعلیم کیا ہیں اور کون کتنی دیر تک اسکول میں رہتا ہے؟
جواب  جرمنی مین دسویں کلاس تک تعلیم لازمی قراردی گئی ہے ہر بچے پر فرص ہے کہ وہ دسویں تک تعلیم حاصل کرے اہم بات یہ ہے کہ اگر طالب علم پڑھائی میں کمزور ہے اور اگر ساتویں یا آٹھویں میں 2 مرتبہ فیل ہوتا ہے تو اسے اسکول سے خارج کرکے اس کے پسندیدہ پروفیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص انسٹیٹیوشن میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں اسے تقریباً 3 سال کا کورس کروایا جاتا ہے۔

سوال نمبر4۔ کیا بچے جرمن اسکول سسٹم اور نطام سے خوش ہیں؟
جواب: نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچے اس سڑے ہوئے وحشیانہ میڈیا سسٹم کے بجائے اپنی فیملی سے محبت کرتے ہیں اور بخوشی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں بچوں کی اس سوچ کے بارے میں برلن سے شائع ہونے والے ایک میگزین اور بونسیف کے ادارے نے مفصل رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتا یا کیا ہے کہ ملازمت کرنے والے والدین کے پاس وقت کی کمی کے باوجود بچوں کو اس بات کا قطعی افسوس نہیں کہ ان کے والدین انہیں کم وقت دیتے ہیں۔

سوال نمبر5۔ تعلیم نظام میں بہتری کی ضرورت ہے؟
جواب: دیکھیں تعلیمی نظام صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر ایک عام انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس نظام کی قدر کرے اور اس کی پروی کرے حکومت کا کام ہے ہمیں ایک نظام دینا اور ہمارا کام ہے اس نظام کی حفاظت کرنا اگر اساتذہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دے رہے تو ان کے خلاف ہمیں بھی کاروائی کرنی چاہیے اور حکومت کو تعلیمی نظام پر فوقیت کے لیے متوجہ کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے اتنے سیاستدان اپنے مفادات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں کبھی تعلیمی نطام کے ردو بدل کے لیے تو کوئی سڑک پر نہیں نکلا۔ ہمیں مغرب سے تعلیمی نظام کو سیکھنا ہوگا اور وہ نظام اپنے ملک میں رائج کرنا ہوگا جب ہی ہم مغرب کے شانہ باشانہ کھڑے ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر6۔ تعلیمی نظام دہشت گردی سے محفوظ کیسے ہوگا؟
جواب: میرے خیال میں ہم دہشت گردی کے چنگل سے جب تک نہیں نکل سکتے جب تک اس ملک کا پورا کا پورا نظام نہیں بدلتا۔اب میں آپ کو چند باتین ایسی بتاتا ہوں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا صرف تعلیمی نظام ہی نہیں بلکہ پورا کا پورا سسٹم ہی خراب ہے۔اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اس میں اسلام کے قوانین پر کوئی عمل درآمد نہیں ہے قانون انگریز کا ، سزائیں بھی انگیریز کی ، انہوں کے رہن سہن کا انداز بادشاہوں جیسا، بینکنگ سسٹم یہو دیوں کا صرف تعلیمی نظام ہے جو صرف ہمارا اپنا ایجاد کیا ہوا ہے جس میں ہم ان کو فولو نہیں کرتے باقی سب چیزوں میں ہم ان کا سسٹم وہ بھی ملاوٹ کا سسٹم اگر پورا ان جیسا سسٹم اپنا لیں تو شاید ترقی کرلیں پر ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں جبھی تو یہ نام نہاد جہادی ہتھیار اٹھا کرشر یعت کے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیںیا تو اس ملک کو سیکو لر ریاست بنادو یا پھر اگر اسلامی ریاست بنانی ہے تو شر لعت کا نفاذ ہونا صروری ہے ورنہ ہم پوری زندگی ایسے ہی پستے رہیں گے۔

سوال نمبر7۔تعلیمی نظام میں تباہی کا ذمہ دار کون؟
جواب: تعلیمی نظام میں تباہی کے ذمہ دار ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے حکمران ہیں مگر جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم خود بھی اس نظام کی تباہی کی وجہ ہیں ہم آنکھ پر پٹی باندھ کر چپ چاپ بیٹھے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور سارا ملبہ حکومت پر ڈال دیتے ہیں ارے حکومت کو لانے والے بھی تو ہم ہی نہیں تو ہم بھی تو اس کے ذمہ دار ہوئے نہ۔

 سوال نمبر8۔آخر میں چند اقدامات ایسے تجویز کردیں جو ہمارے تعلیمی نظام کے لیے بہت ضروری ہیں؟

جواب : سب سے پہلے تو ہمیں تعلیمی نطام میں تعلیم کا بحٹ بڑ ھا نا ہوگا GPکے 2 پرسٹ سے تعلیم نہیں چلتی ۔اس کے بعد گراﺅنڈ لیول پر تعلیم پر توجہ دینی ہوگی گورنمنٹ اسکولز میں اساتذاہ سختی کرنی چاہیے اور ان کے حالات اور تعلیمی حالات کو بہتر بنانا ہوگا اساتذا کا سلیکشن میرٹ پر ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتح پرائیوٹ اسکولوں کو گورنمنٹ کے انڈر میں لے کر ایسا سسٹم ہو کے ہر بچے کی فیس اور اخراجات گورنمنٹ ادا کرے اسکول مالکان کو بچے مفت تعلیم حاصل کریں۔ یہ جو بڑے اسکول ہیں سٹی فاﺅنڈیشن، بیکن وغیرہ حکومت کو چاہیے کہ ان کے مالکان کو ان کی انکم کے مطابق پیسہ دیں اور اسکول حکومت کے انڈر مین کام کرے عملہ وہ ہی رہے بس پیسہ حکومت فراہم کرے بچوں سے تعلیم کے اخراجات نہ اٹھوائین اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میںبچوں کو سہولیات فراہم کی جائیں جیسے کہ کچھ دنوں پہلے انڈیا میں سرکاری اسکولوں میں ایک سسٹم متعراف کروایا جس میں بچوں کو اسکول میں دوپہر کا کھانا دیا جاتا تھا ور اچھا کھانا دیا جاتا تھا اس سے غریب غربہ جو ہیں وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر زور دینگے۔اور بچوں کے لیے بھی ایک لالے ہوگی جس کے غط وہ تعلیم کی طرف راغب ہونگے۔
 دسمبر 2015 
 Imporver failure

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home