Wednesday, May 18, 2016

نو عمری میں خودکشی کارجحان

اپنا رول نمبر کلاس اور امپروئر فیلوئر ہو وغیرہ یہ بھی لکھنے کی زحمت کر لیں

 یہ کیا چیز ہے؟ فیچر ہے، آرٹیکل ہے ؟ آرٹیکل ہے تو بھی ٹھیک سے نہیں لکھا اور فیچر تو بالکل ہی نہیں
(Pre) Improver failure
سید فواد علی 
  نو عمری میں خودکشی کارجحان

نوعمری میں خودکشی کا بڑھتے رجحان میں عشق میں ناکامیں اورسماجی دباو ¿بڑی وجوہات ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ آجکل کی نوجوان نسل پڑھای ¿ پر توجہ دینے کے بجا ے موبا ے ¿ل فونز، کیبیل نیٹورک پر آنے والے ڈراموں ،فلموںاور عشق محبت کے معا ملات میں زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔والدین کے پاس زیادہ پیسے ہوںیا پیسے کی کمی۔وہ ہمشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ انکی اولاد اعلی تعلیم حاصل کر کے انکا نا م روشن کرے۔اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے والدین اپنی تمام تونای ¿یاںصرف کرتے ہیں۔لیکن صورتحال اس وقت تشویشن ناک ہوجاتی ہے جب اسکول کالج جانے والے بچے پڑھای ¿ پر توجہ دینے کے بجاے ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگتے ہیں جس کے فوای ¿د کم اور نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔
ٰٰیہ وہ سر گر میاں ہیں جو انھیںکامیابی کے بجاے ناکامی کی طرف دھکیلتی ہیںاور وہی والدین جو کی ¿ سالوں تک اپنے بچوں کے تعلیم کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔انھیں شرمندگی کے ساتھ اپنی اولاد کی موت جیسا دکھ سہنا پڑتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کے کالج اور یونیورسٹی کے طلباءاور طالبات گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں کر تیں ہیںاور گھر آنے کے بعد یہ سلسلہ موبای ¿ل فون پر شروع ہوجاتا ہے۔اور آدھی رات تک لیپ ٹاپ کی مدد سے ویڈیو کالنگ شروع ہوجاتی ہے۔والدین یہ سمجھتے ہیں کہ انکے بچے پڑھای ¿ میں مصروف ہیں۔لیکن وہ تو ساتھ جینے اور مرنے کی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔
حالات اس وقت کروٹ لیتے ہیںجب عشق میں ناکا می کا سامنا کرنا پڑجاے۔ناکامی کے آثار دیکھتے ہی لڑکا لڑکی دونوں ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیںجس سے نکلنا انکے بس میں نہیں ہوتاعشق کو زندہ رکھنے کی جب کوی ¿ بھی تدبیر کام نہیں آتی تو ایسے میں لڑکا یا لڑکی موت کو گلے لگانا پسند کرتے ہیں اور خود کشی جیسا نہایت سنگین اقدام اٹھانے میں بھی گریز نہیں کر تے۔
ما ہریں ںنفسیات کا کہنا ہے کہاسکول ،کا لج اور یونیورسٹیوں میں کے طلباءمیں خود کشی کا بھڑتا کارجحاں واقعی تشویشن ناک ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عشق اور امتحانات میں ناکامی،والدین کی ڈانٹ ڈپٹ،خراب گریلونںحالات،ٹیلی ویژن میں آ نے والے ڈرامے اور فلمیں موبای ¿ل فونز اور جنسی زیادتی اور بیلک میلینگ جیسے واقعات طالب علم کو خود کشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور کر تے ہیں ۔
نوجوان کے حقوق کے لیے کام کنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق پاکستان میں گزشتہ دو برسوں میں خود کشی کر نے والوں امیں زیادہ تعداد 14سے27 برس تک کی عمر کے نوجوانوں کی ہے جن میں اکثریت طالب علموں کی ہے ۔
والدین کو اسطرح کے واقعات سے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور یہ دیکھے کے کہیں انکے بچے کسی
 غلط کاموں میںحصہ تو نہیں لے رہے۔ کیونکہ زرہ سی لاپرواہی مشکلات کا سبب بن سکتی ہے 

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home