چائلڈ لیبر
کیا چائلڈ لیبر کا اردو میں کوئی لفظ نہیں؟ آپ کا یہ مضمون خاصا کاپی پیسٹ لگتا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ میں نے اس طرح سے آپ کا یہ ٹاپک منظور کیا ہوگا۔
اپ اپنا نام کبھی محمد فہد علی لکھتے ہیں کبھی فہد علی نقوی لکھتے ہیں ۔ ایک بار فیصلہ کر لو، ہمیں ریکارڈ رکھنے میں دقت ہوتی ہے
What is current, relevant in present conditions, no such reference, U should know what is an artilce
چائلڈ لیبر (آرٹیکل)
2K15/MMC/49
MA (Pass)
Syed Muhammad Fahad Ali
بچے جو کسی ملک کا مستقبل ، سرمایہ اور اثاثہ ہوتے ہیں ، جب حالات سے مجبور ہوکر ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں تو یقینا اس معاشر ے کیلئے ایک المیہ وجود پار ہا ہوتا ہے ۔ یہ المیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زخم کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر نا سور بن کر سماج کا چہرہ داغ دار اور بدصورت کردیتا ہے ۔ پاکستان میں بھی معاشی بدحالی ، سہولیات سے محرومی ، اسحتصال ، بے روز گاری ، غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس المیے کو جنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتا چلا جارہا ہے ۔ ساری دنیا ہی اس لعنت کا سامنا کررہی ہے اور اس کے خاتمے کیلئے اقدامت کیے جارہے ہیں لیکن پاکستان میں چائلڈ لیبر ایک سماجی ضرورت بن چکی ہے ۔ امیر کے امیر تر اور غریب کے غریب تر ہونے پر قابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کو ابتداءسے ہی کام پر لگادیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے ، ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں ۔ اسکول جانے کی عمر کے بچے دکانوں ، ہوٹلوں ، بس اڈوں ، ورکشاپوں اور دیگر متعدد جگہوں پر ملازمت کرنے کے علاوہ مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں ۔ قوم کے مستقبل کا ایک بڑا حصہ اپنے بچپن سے محروم ہورہا ہے ۔ مملکت خداداد کے قیام کو ساٹھ سال گزرچکے گر آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جاسکے ۔ اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کو منشور کا حصہ بنایا ۔ معاشرے کے کسی اور طبقے کی طرف سے بھی اس جانب کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ۔ ایسالگتا ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی چائلڈ لیبر کو اپنے لیے ناگزیر مجبوری تسلیم کرلیا ہے ۔ بالخصوص ارباب اختیار کو اس ضمن میں کوئی پریشانی لاحق نہیں ۔
پاکستان میں بچوں کی مزدوری کا قانون بنے چودہ سال ہوگئے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا اور خود اس قانون میں بھی نئے عالمی کنوینشنز کے مطابق بہتری لانے کی ضرورت ہے ۔ مزدور بچوں پر آخری سروے 1996میں ہوا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں تینتیس لاکھ مزدور بچے ہیں جبکہ یہ صرف باقاعدہ کام کاج جگہوں پر کام کرنے والوں کی تعداد ہے۔ مزدور بچوں کا 80فیصد تو غیر رسمی شعبہ میں ہے جیسے گھروں میں اور کھیتوں میں کام کرنے والے بچے جن کا کوئی سروے دستیاب نہیں ۔ سماجی بہبود کے اعداد و شمار کے مطابق باقاعدہ شعبوں میں کام کرنے والے مزدور بچوں کی تعداد چالیس لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور اس میں سے بیس لاکھ مزدور بچے پنجاب میں ہیں ۔ پاکستان میں بچوں کی مزدور سے متعلق جو قوانین ہیں ان میں بچے کی تعریف میں ایسے نو عمر لوگ ہیں جن کی عمر ابھی پوری چودہ سال نہیں ہوئی جبکہ عالمہ کنونشنز میں یہ عمر پندرہ سال ہے ۔ ملک میں پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے دو کروڑ بیس لاکھ بچکسلولوں سے باہر ہیں اور یہ سب بچے کسی وقت بھی نو عمر مزدور بن سکتے ہیں ۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں گاڑیوں کی ورکشاپوں ، فرنیچر کارخانوں اور ہوٹلوں میں مزدور بچوں کی ایک کثیر تعداد کام کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک بھر کے بھتہ خشت پر بھی بچوں سے نہ صرف مزدوری بلکہ جبری مشقت لی جارہی ہے۔
سیالکوٹ میں جراحی کے آلات بنانے کے کارخانوں میں ہزاروں بچے مزدوری کرتے ہیں اور ملک ان کی محنت سے اربوں روپے کا زرمبادلہ کماتا ہے ۔ یہ بچے ریتی پردھات کے گھسنے سے نکلنے والی دھاتی دھول کو بھی سانس کے ساتھ اندر لے کر جاتے ہیں جو ان کے کام کا بہت خطرناک پہلو ہے اسی طرح ڈینٹنگ پینٹنگ اور فرنیچر کی پالش کرنے والے بچوں کے پھیپھڑے بھی رنگ اور پالش میں موجود مختلف کیمیکلز سے متاثر ہوتے ہیں اور ٹی بی کا باعث بنتے ہیں ۔ کم عمر بچوں کا اپنے والدین سے دور مستریوں کی نگرانی میں کام کرنا بھی بذات خود کئی مشکلات کا باعث بنتا ہے کیونکہ ان ورکشاپوں کے مالکان کا ان بچوں سے کوئی براہ راست رشتہ نہیں ہوتا۔
پنجاب کے محکمہ محنت کے ایک اعلی افسر کے مطابق آلات جراحی بنانے کے کام میں بچوں کی مزدوری ان سات شعبوں میں شامل ہیں جنہیں حکومت نے بچوں کے کام کیلئے خطرناک قرار دیا ہوا ہے ۔ دوسرے کاموں میں کان کنی ، کوڑا اٹھانے کا کام ، چوڑی سازی ، ماہی گیروں ، قالین بافی اور چمڑا بنانے کی صنعت شامل ہے ۔ بچوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک کام تو چمڑے کی صنعت کا ہے جہاں بڑی تعداد میں کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں ۔ قالین بافی میں بچے دس سے بارہ گھنٹے پنجوں کے بل بیٹھ کر کام کرتے ہیں جس سے ان کی ہڈیاں مڑجاتی ہیں ۔
ملک بھر میں بچے کوڑا اٹھانے کا کام بھی کرتے ہیں جس میں وہ ہسپتالوں کا کوڑا بھی اٹھاتے ہیں جس میں خطرناک بیماریوں میں استعمال ہونے والی پٹیاں ، ٹیکے وغیرہ بھی ہوتے ہیں ۔ بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے اور بہت سے والدین اگر پیسوں کے لیے نہیں تو صرف اس لئے بچوں کو کام پر بھیجنا شروع کردیتے ہیں کہ وہ کوئی ہنر تو سکھے گا کیونکہ حکومتی نظام تعلیم میں مستری ، بڑھتی یا ٹیکنیشن اور اسی طرح کے دوسرے ہنر نہیںسکھائے جاتے اور نہ ہی ایسے ہنر سکھانے والے ادارے بھی موجود ہیں ۔ تاہم غربت کے ساتھ کئی اور عوامل بھی اہم ہیں ۔ مثلاً قالین بافی کی صنعت میں بچوں کی بہبود کے لئے آئی ایل او کے منصوبہ پر کام کرنے والے اہلکار کے مطابق قالین بافی میں صرف 22 فیصد بچے خاندان کی غربت کی وجہ سے تھے جبکہ علم کی طرف رغبت دلانے پر 45فیصد بچوں نے قالین بافی کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر سکولوں کا رخ کرلیا ۔ تعلیم اور صحت کی بہتر سہولیات بچوں کی مزدوری کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور بنیادی تعلیم سے بھی مزدور بچوں کے حالات میں بہتری آسکتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے 2005ءمیں اونٹ ریس میں بچوں کے استعمال پر پابندی لگائے جانے کے بعد وہاں سے تقریباً 700بچے واپس پاکستان بھیجے گئے گذشتہ ڈھائی سال کے دوران بچوں کی سمگلنگ میں ملوث چھ سو ملزمان کیخلاف مقدمات درج ہوئے جن میں سے صرف چونسٹھ افراد کو سزائیں سنائی گئیں ۔ 2002ءمیں ایک آرڈیننس بھی جاری کیا گیا تھا جس کے تحت اس کاروبار میں ملوث افراد کو چودہ سال تک سزا دی جاسکتی ہے۔ پاکستان سے بیرونی ممالک کو بچوں کی سمگلنگ 1979میں شروع ہوئی اور ہنوز یہ دھندہ بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کی روک تھام کیلئے حکومت کو مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں بچوں سے مزدوری لینے کے کام میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور امید ہے کہ یہ غیر قانونی کام 2015تک دنیا کے تمام ممالک میں ختم ہوجائے گا ۔ آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں مزدور بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ تاہم تنظیم کے مطابق ابھی پاکستان میں ہزاروں بچے چوڑیاں بنانے ، سرجیکل آلات کی صنعت ، کوئلے کی کانوں ، گہرے سمند میں مچھلیاں پکڑنے کے کاروبار اور چمڑے کے کارخانوں میں کام کررہے ہیں ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے چاروں صوبائی دارالحکمومتوں میں ایک لاکھ دس ہزار سے زائد بچے صرف کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے اور ہسپتالوں کا فضلہ جمع کرنے کے کاروبار سے وابستہ ہیں ۔ اسی طرح ملک بھر میں ڈینٹنگ پینٹنگ کی کی ورکشاپوں ، فرنیچر بنانے کے کارخانوں اور ہوٹلوں پر لاکھوں کے حساب سے بچے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔
ملک میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ مملکت خداداد میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی ۔ لہٰذا چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے صرف حکومتی سطح پر ہی اقدامات کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کے خاتمہ کیلئے معاشرہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا اور غربت کے ہاتھوں مجبور ہوکر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم ، علاج معالجہ اور انہیں کفالت فراہم کرنے کے ذرائع مہیا کرناہوں گے اس کے علاوہ کروڑوں کے فنڈ خرچ کرنے والی این جی اوز کو بھی چائلڈ لیبر اور اس کے اسباب کے خاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
Labels: سید فہد
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home