Wednesday, May 18, 2016

شاہ جہانی مسجد ٹھٹہ

Is this approved topic? 
 اپ اپنا نام کبھی محمد فہد علی لکھتے ہیں کبھی فہد علی نقوی لکھتے ہیں ۔ ایک بار فیصلہ کر لو، ہمیں ریکارڈ رکھنے میں دقت ہوتی ہے
Feature is always reporting based and it basic function is to entertain. Ur feature lacks both quality, hence its poor
 Foto is also required. What is it present condition? 
 Ur file name is not correct


شاہ جہانی مسجد ٹھٹہ علی نقوی
2k15/MMC/49
M.A Pass (final) 

شاہ جہانی مسجد ٹھٹہ   فیچر

پاکستان کی تاریخی عمارتوں میں ٹھٹہ کی جامع مسجد شاہ جہاں،مغلیہ دور کا تعمیراتی شاہکار سمجھی جاتی ہے۔اگر چہ مغلیہ دور میں ایک نہیں متعدد عمارتیں تعمیر ہوئیں، جن میں دہلی او ر لاہور کے شاہی قلعے، تاج محل اور دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے، مگر صوبہ سندھ کی سرزمین پر واقع جامع مسجد شاہ جہانی اپنی مثال آپ ہے کراچی سے تقریبا 62میل واقی ٹھٹہ میں اس مسجد کی تعمیر 1644میں شروع ہوئی اور مجموعی طور پر یہ تین سال کت عرصے میں مکمل ہوئی۔
مسجد کا کل رقبہ تقریبا چھ ہزار تین سو سولہ مربع گز ہے اس دور کے حساب سے مسجد کی تعمیر پر تقریبا ۹ لاکھ شاہ جہانی روپے خرچ ہوئے جو شاہی خزانے سے ادا کئے گئے تھے۔مسجد اگرچہ ایک ہی منزلہ ہے مگر مضبوطی کی غرض سے اسکی بنیادیں ۲۱ سے ۵۱ فٹ گہری ہیں۔ بنیاد میں پہاڑی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ مسجد میں داخلے کے لئے ۳ جانب سے ۵ دروازے بنائے گئے ہیں جن میں سے ایک مرکزی صدر دروازہ اور دو چھوٹے دروازے اطراف میں ہیں جبکہ ایک ایک دروازہ شمالی اور جنوبی دیواروں کے وسط میں ہیں۔
شاہ جہانی مسجد کی خوبصورتی اسکے وہ چھوٹے بڑے گنبد ہیںجنکی تعداد ۰۰۱ ہے۔ مسجد کے اندر سے ان گنبدوں کو دیکھا جائے تو انکے در ایک لائن میں اور ترتیب کے اعتبار سے بہت دلکش لگتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ہر در پہلے در سے چھوٹا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔گنبدوں میں چھ بڑے اور باقی سب چھوٹے گنبد ہیں، ہر گنبد کے نیچے نہایت چھوٹے چھوٹے ستون ہیں، ان ستونوں کی کل تعداد ۴۹ ہے۔ چوکور گنبد سرخ اور سفید پتھروں سے بنائے گئے ہیں اور انکی سرخ اور سفید لائنیں مل کر ایک ایسا ڈیزائن ترتیب دیتی ہیں جو دیکھتے ہی بنتا ہے۔گنبدوں کی ترتیب اور آمدو رفت کا انتظام کچھ اس خوبی سے رکھا گیا ہے کہ تلاوت و خطبے کی آواز پوری مسجد میں کسی صوتی آلے کے بغیر با آسانی سنائی دیتی ہے۔ مسجد میں ہوا اور روشنی کے لئے دیواروں میں نہایت کشادہ اور جالی دار روشن دان بنائے گئے ہیں جو طاق کا بھی کام دیتے ہیں اور روشنی اور ہوا بھی ان سے با آسانی گزرتی ہے۔ ان روشن دانوں کی ترتیب بھی ایک خاص انداز میں رکھی گئی ہے۔ اسکے بدولے مسجد کے کسی بھی حصے میں چلے جائیے ہوا اور روشنی کی کمی کا احساس تک نہیں دیتا، انکی وجہ سے مسجد کا کوئی بھی حصہ تنگ محسوس نہیں ہوگا۔مسجد میں ۰۲ ہزار افراد بیک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کے خطیب و امام کا سلسلہ بھی شاہ جہاں کے دور سے ایک ہی خاندان میں چلا آرہا ہے۔موجودہ مسجد اور امام مسجد کا نام قاری عبدا لبا سط صدیقی ہے۔ انکے شجرے سے تعلق رکھنے والے افراد نسل در نسل اس مسجد میں خدمات سر انجام دیتے آرہے ہیں۔
مسجد کے انتظامات سنبھالے کے لئے باقاعدہ ایک کمیٹی موجود ہے علاوہ ازیں اخراجات کے لئے چندے کا سہارا بھی لیا جاتا ہے اس مقصد کے لئے مسجد کے اندر کچھ مقامات پر چندے کی پیٹیاں بھی رکھی گئی ہیں۔ وضو کی غرض سے مسجد میں ایک جانب خاصی وسیع و عریض حوض بھی بنا ہوا ہے۔ گو کہ اب وہ اکثر و بیشتر خالی رہتا ہے لیکن اسکی چار دیواری کے ساتھ ساتھ نمازیوں کے وضو کرنے کی غرض سے کئی درجن نل نصب ہیں۔ منا سب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث مسجد جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اکا دکا جگہ سے نقشیں ٹائلز بھی اکھڑ گئی ہیں، بعض جگہوں پر پرندوں نے دیواروں پر گھونسلے بنا لیے ہیں۔بیرونی اطراف شاہی گیٹ اور مسجد کی چار دیواری کے درمیان ایک بڑا سا پارک بنایا گیا ہے جہاں کھجور کے قد آور درخت لگے ہوئے ہیں۔مسجد میں لائٹنگ کا ایک معقول انتظام ہے ۔ پبلک ایڈریس سسٹم اور لاﺅڈ اسپیکر بھی نصب ہیں۔صدر دروازے پر فارسی کے اشعار کندہ ہیں جن میں شاہ جہاں کا نام بھی تحریر ہے۔مسجد کے صحن میں ایک پتھر کی جائے نماز بھی تعمیر کی گئی ہے جنکے کناروں باقاعدہ نقش و نگار کندہ ہیں۔مسجد میں جا بجا نیلے اور سفید رنگ کے نقش و نگار والے بڑے بڑے ٹائلز نصب ہیں کچھ ٹائل خاکی ، کچھ براﺅن اور کچھ دیگر رنگوں کے بھی ہیں یہ مسجد کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں۔ مسجد کے ممبر اور اسکے چاروں کونوں پر خاص اہتمام اور ڈیزائن کے ساتھ دلکش ٹائلز جڑے ہوئے ہیں جو نہایت قدیم ہونے کے باوجود مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہیں۔مسجد کے تینوں جانب مقامی آبادی کے جدید انداز کے مکانات موجود ہیں جبکہ دائےں جانب والے دروازے کے اوپر اتفا ق سے تین گنبد ایک ہی لائن میں موجود ہیں ۔ جو ماضی، ماضی قریب اور جدید زمانوں کی تعمیراتی فرق کا جیتا جاگتا اور بہت واضح ثبوت ہیں۔

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home