Wednesday, May 18, 2016

کیچڑ کی سیاست

 یہ نہ منظور شدہ ٹاپک ہے اور نہ ہی انویسٹیگیشن رپورٹ۔ آپ نے کوئی کالم کاپی پیسٹ کر کے بھیج دیا ہے


(انویسٹی گیشن رپورٹ)
2K15/MMC/49
MA (Pass)
Syed Muhammad Fahad Ali

کیچڑ کی سیاست 
کیچڑ کی سیاست ، منظر کچھ یوں ہے کہ قطرہ سمندر کا اصل مظاہرہ دیکھنے کیلئے آپ کو مون سون کی بارشوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے جب بارش ہوتی ہے تو چھوٹی چھوٹی نالیوں میں طغیانی آجاتی ہے اور وہ ندی نالوں کی شکل اختیار کرلتیں ہیں ان کے ملاپ سے سڑکیں دریاﺅں کی گزر گاہوں میں تبدیل ہوجاتیں ہیں اور ان دریاﺅں کے ملنے سے شہر ایک بحر بیکراں کا روپ دھارلیتا ہے اور اس کے بعد پانی پانی ہر جگہ پانی کا منظر ہوتا ہے ویسے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اتنا پانی ہونے کے باوجود ہمارے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر جھگڑا کیوں رہتا ہے؟
ہمارے ہاں ایک گھنٹہ بارش ہوجائے تو ایک ماہ تک اس کے آثار رہتے ہیں اگر آپ سیاح ہیں یا کافی عرصہ بعد بیرون ملک سے پاکستان تشریف لائے ہیں آپ کو ہر گھر کے سامنے ایک تالاب نظر آئے اور ہر تالاب میں درجن درجن بھر بچے کھیلتے نظر آئیں تو آپ بڑے فخر اور یقین کے ساتھ یہ بیان دے سکتے ہیں مگر ٹھہریئے !کہیں ایسا نہ ہو کے آپ کی ذہانت حکمت اور فلسفہ دھرے کا دھرا رہ جائے یہ بیان دینے سے قبل اس بات کا اطمینان کرلیں کہیں واسا (WASA) تو اس شہر پر مہربان نہیں ہے۔ بارش سے قبل ہمارے گلی کوچوں میں مٹی ، دھول بن کراڑتی ہے ۔ اور بارش کے مٹی اور پانی کا آمیزہ جیسے بعض لوگ کیچڑ اور باز لوگ چکر کہتے ہیں اڑتا ہے بڑے بوڑھیا ورخاص طور پر نمازی حضرات اس آمیزے سے اپنے کپڑوں کو بچانے کی ناکام کوشش کرکے اپنے آپ کو پرہیز گار اور معزز ثابت کررہے ہوتے ہیں۔ مگر بارش کے بعد باہر چہل قدمی کرنے کی صورت میں نقصان کی تمام تر ذمہ داری آپ پر عائد ہوگی یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے پاﺅں وفانہ کریں اور آپ کینوس بننے کی بجائے پینٹ میں سے لتھڑ ے ہوئے برش کی طرح کیچڑ سے برآمد ہو اور اگر ابھی تک آپ کے ہاتھ پاﺅں سلامت ہوتو لوگوں سے مدد امید نہ رکھے اور لوگوں کو ہنسنے کا زیادہ موقع نہ دے اور سیدھا گھر کا راستہ لیں ۔ بارش کے بعد کیچڑ کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے مثلاً احمد فراز کا یہ شعر بارش کے بعد کے حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ 
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی 
لوگوں نے میرے صحن سے راستے بنالیے

دیہاتوں ، قصبوں اور کچی بستیوں میں یہ مناظر عام نظر آتے ہیں مگر لوگ اسی صورت میں رستہ بناتے ہیں اگر آپ دیوار تعمیر نہیں کرتے اور دیوار گرنے کی تمام ذمہ داری ہمسایوں پر عائد کی جاتی ہے جیسا کہ انڈیا افغانستان میں غبارہ بھی پھٹ جائے تو ذمہ داری پاکستان پر عائد کی جاتی ہے الزامات کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں فلاں کے گھر سے پانی ہماری دیوار کی بنیادوں میں داخل ہوا فلاں نے گلی میں مٹی ڈلوائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پانی جمع ہوکر ہماری دیوار کی بنیادوں میں داخل ہوا اور دیوار زمین بوس ہوگئی حیرت کی بات ہے کہ اس معاملے میں معمار حضرات کے فن تعمیر پر کوئی روشنی نہیں ڈالی جاتی اور یوں خواتین کے درمیان لڑائی کی ابتداءمندرجہ بالا الزامات سے ہوتی ہے مگر فریقین پانی ، بنیادوں اور زمین بوس دیوار کو بھول کر ایک دوسرے کے شجرہ نصب تک پہنچ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی سوانح عمری کے اہم واقعات پر روشنی ڈالنا شروع کردیتی ہیں دیکھتے ہی دیکھتے گلیوں چھتوں ، اور کھلے دروازوں اور کھڑکیوں سے بچے اور خواتین نظر آرہی ہوتی ہیں جو حسین موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں گھروں کے بارے میں اپنی معلومات خاصہ میں اضافہ کررہی ہوتی ہیں یہ لڑائیاں زیادہ تر زبانی کلامی ہوتی ہیں اور مخالفین فاصلے پر ہونے کے باعث ہاتھا پائی سے گریز کرتے ہیں۔ بارش شروع ہوتے ہیں ہی کچھ گھروں کو ریڈزون قرار دے دیا جاتا ہے اور ان گھروں کے سربراہ ایمرجنسی کا اعلان کردیتے ہیں مرد حضرات چھتوں کے اوپر مٹی سے بھرے تھال اور خواتین گھر کے برتن اٹھائے کمروں کے اندر اپنی پوزیشن سنبھال لیتیں ہیں پھر اس طرح کی آوازیں سنادیتی ہیں کپڑوں کے صندوق کے اوپر چھت ٹپک رہی ہے ، مسہری پر پانی گررہا ہے ، بستر بھیگ رہے ہیں ، الغرض تھالوں کی مٹی اور گھر کے برتن ختم ہوجاتے ہیں مگر چھت کے سوراخ ختم نہیں ہوتے ۔ فرض کریں اگر بارش میں پانی کی بجائے معدنی تیل برستا تو امریکہ والے دنیا کے تمام بادلوں پر قبضہ کرنے پہ تلے ہوتے اور صورت حال کچھ اسطرح سے ہوتی کہ زمین کے ساتھ ساتھ آسمانوں میں بھی ایک نئی جنگ جاری ہوتی جس میں دہشت گردوں کی روحوں کی تلاش کے تناظر میں تمام اسلامی ممالک کے بادلوں پہ غلبہ کی کوشش کی جاتی ۔ یہاں اگر بات عاشقوں کی نہ جائے تو ظلم ہوگا کیونکہ بارش اور عاشقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ بقول شاعر 
اگر ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
لذت وصل حاصل ہونے کے بعد کس نامراد کا دل چاہتا ہے کہ فراق کی تکلیف جھیلیں ؟ البتہ اگر ناکامی پہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ جائے تو بارش کا منظر کچھ یوں ہوگا۔
اگر کبھی برسات کا مزہ چاہو ، تو آﺅان آنکھوں میں آبیٹھو
وہ برسوں میں کبھی برسے ہیں ، یہ برسوں سے برستی ہیں

ویسے پرانے وقتوں میں بقول شاعر تنہائی کا مزہ یادوں کے سہارے اور وہ بھی برسات کے ساتھ ۔
ٰٰاک شام کی تنہائی ہے اور یہ برسات ہے 
ایسے میں تیری یاد ہے اور یہ برسات ہے

مگر اب موبائل کا دور ہے صرف اک مس کال کے فاصلے پہ محبوب کھڑا ہے ۔ البتہ اگر بیلنس کی کمی ہے تو بارش کا مزا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر کوئی مس کال مل جائے تو کیچڑ مت اچھالیے گا کیونکہ اگر بات بگڑ گئی تو برسات کا مزہ بھی جاتا رہے گا اور تنہائی بھی کاٹنے کو دوڑے گی !!!!

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home