Saturday, December 26, 2015

Mir Haram of Hyderabad feature


Name: Amjad Ali
Roll # 2k12/MC/13
فیچر
میر حرم
امجد علی
کسی بھی ملک کے تاریخ ورے اس ملک کی شان ہوتے ہیں مگر پاکستان مین تاریخی ورثوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو سو تیلی ماں اپنے سوتیلے بچوں کے ساتھ کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف چند ایک تاریخی ورثوں کو چھوڑ کر باقی تمام تاریخی ورثوں کے نشانات آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے مٹتے جارہے ہیں جوکہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے تاریخی ورثون گامٹ جانا بلکل ایسے حی ہے جسے ہم اپنے اباﺅ اجداد کو بھلا دیتے ہیں ۔ انہیں تاریخی ور دثوں میں سے ایک ورثہ حیدر آباد کا پکہ قلعہ بھی ہے جو دن بہ دن اپنی شناخت کھوتا جارہاہے۔
نہ صرف حیدر آباد بلکہ پورے پاکستان کا یہی حال ہے صرف چند ایک تاریخی ورثون کو چھوڑ کر باقی سارے تاریخی ورثے اپنی شناخت کھوتے جارہے ہیں انہیں تاریخی ورثوں میں سے ورثہ حیدر آباد پکہ قلعے میں واقع میر حرم بھی ہے آیے ذرا پکہ قلعہ اور میر حرم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔

شاہی قلعہ جو پکہ قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے کلھوڑون کے بادشاہ غلام شاہ کلھوڑو نے 1768ءمیں تعمیر کیا تھا یہ قلعہ ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا غلام شاہ کلھوڑو نے جب حیدر آباد شہر میں قدم رکھاتو انہوں نے اس شہر کو سندھ کا دار الحکومت بنا دیا تھا اور پھر اس شہر میں ترقیاتی کام کروائے اور تاریخی عمارتیں بنوائیں۔سندھ میں تالپوروں کے دور حکومت میں میر فتح علی خان نے1789 ءمیں اپنا دار لحکومت حیدر آباد میں ترتیب دیا انہوں نے اپنے دور حکومت میں پکہ قلعہ مین بہت سے جرم بنوائے جس میں بادشاہوں کے خاندان رہتے تھے اور بہت سی مسجدیں بھی بنوائین جو کہ آج بہت کم پائی جاتی ہیں۔

ان حرموں میں سے ایک حرم میر حرم کے نام سے آج بھی ایک بلڈنگ نظر آتی ہے یہ عمارت حرم میران شاہ تالپور 1784ء تا 1843ءکے نام پر بنائی گئی حرم میران تالپور کی تعلیم میر فتح علی خان تالپور کے عہد حکومت میں کی گئی یہ عمارت ایک مربع نما کمرے پر محیط ہے جس کی لمبائی و چوڑائی 281/2 ساڑھے اےھایُس فٹ اور اونچائی15 فٹ ہے کمرے کے چارون اطراف 2 لکڑی کا برامدہ ہے ۔مغربی بر آمدہ نسبتاً بڑا ہے کمرے کی ہر دیوار کے وسط میں ایک دروازہ ہے مغربی دروازہ لکڑی کی کندہ کاری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے کمرے کے جنوبی اور شمالی اطراف مین دو دو کھڑکیاں نسب کی گئی ہیں کمرے کا اندرونی حصہ نکاشی کے دلکش ڈیزائنوں سے مزین ہے جبکہ لکڑی کی چھت نہایت خوبصورت روغنی کام سے آراستہ ہے 
میر فتح علی کان تالپور کے بعد یہ عمارت دوسرے حکمران میران حیدر آباد مثلاً میر غلام علی کان تالپور، میر کرم علی کان تالپور میر مراد علی خان تالپور میر نور محمد خان تالپور اور میر محمد نصیر تالپور کے استعمال میں بھی رہی ہے۔

یہ تھا پکہ قلعے مین واقع میر حرم کا حال جو آج اپنے حال پر رور ہے آج یہ عمارت اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے اس عمارت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہماری کم زرفی کا یہ عالم ہے کہ ہم نے پکے قلعے جیسی تاریخی عمارت کو توڑ پھوڑ کر اپنے گھر بنالیے ہمیں اپنی تاریخی ورثون کی بلکل قدر نہیں ہے۔ 

 زرا سوچیے اگر ہم مصر میں ہوتے یا احرام مصر پاکستان مین ہوئے تو ہم انہیں بھی توڑ پھوڑ کر اپنے کام میں لے لیتے اور ہماری عوام ان پر اپنے گھر بنا کر بیٹھ جاتی۔اگر ہمارے پاس افل ٹاور ہوتا تو اس کہ بھی پان کی پیکیں پھینک پھینک کر اس کا حال بے حال کردیتے اگر ہمارے پاس اسٹچیو آف لیبرٹی ہوتا تو اس کے ہاتھ مین جو چراغ ہے وہ شاید غائب ہوتا۔

اس تاریخی ورثوں کی ناقدری کی ذمہ دار صرف انتطامیہ اور حکومت ہی نہین بلکہ عوام بحی برابر کی شریک ہے ہمیں دوسری قوموں سے کچھ سیکھنا چاہیے اور اپنے تاریخی ورثوں کی قدر کرنی چاہیے۔
 دسمبر 2015 
 Imrpover failure

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home