Sunday, May 22, 2016

پروفیسر ڈاکٹر حسن علی زیدی سے انٹرویو

 آپ کو یہ ٹاپک اس طرح سے منظور کر کے دیا تھا کہ حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں اور حیدآبار میں ادب کے حوالے سے انٹریو کریں۔ یہ بات آپ کی سلپ میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ بہت ہی کمزور انٹرویو اور منظور شدہ آﺅٹ لائن کے مطابق نہیں

اوےس احمد صدےقی 2k13/MC/23 انٹرےو
پروفیسر ڈاکٹر حسن علی زیدی 

پروفےسر ڈاکٹر حسن علی زےدی کا شمار ان ادےبوں اور محققےن مےں ہوتا ہے۔ جنہوں نے اردو ادب کے لےے گراں قدر خدمات انجام دےں۔ آپ 1964 مےں پےدا ہوئے۔ آپ نے 1991 مےں سندھ پبلک سروس کمےشن کا امتحان پاس کےااور بطورلےکچرار گورنمنٹ کالج کالی موری حےدرآباد مےں تقرر ہوا۔ آپ نے اپنی 25سالہ ادبی زندگی مےں بہت سی کتابےں لکھیں۔ آپ نے 1997 مےں کراچی ےونےورسٹی سے پی اےچ ڈی کی ڈگری حاصل کےں۔ آپ کی کتابےں تحقےق تنقےد، افسانے، طنز و مزاح، اقبالےات، غالبےات، آپ بےتی اور نصاب سے متعلق ہےں۔ آپ نے ہوم اسٹےڈ ہال حےدرآباد مےں 2006 مےں اےک مشاعرہ منعقد کرواےا جس مےں اس وقت کی وزےر تعلےم سندھ حمےدہ کھوڑو صاحبہ نے شرکت کےں۔ 

س ترجمے ےا تصنےف سے تنقےد اور تحقےق کی طرف کےسے آئے؟
جواب مےرے جےسے لوگوں کا، جن کے مضامےن فنون لطےفہ سے متعلق آرٹس ہوتے ہےں۔ کوئی واضح مستقبل نہےں ہوتا۔ جہاں چاہئے نکل جائے۔ گرےجوےشن کے بعد اےم ۔ اے فلاسفی کرنا چاہتا تھا۔ لےکن اےم۔ اے اردو کےا اور لےکچرار بن گےا اور پھر زندگی کا وہ دور شروع ہوا جس سے ہت سے لوگ واقف ہے۔ ادب کو سنجےدگی سے پڑھنا شروع کےا اور افسانے اور تنقےدی مضاےن لکھنا شروع کئے۔ لےکچرار بننے کے بعد زندگی کی صحےح سمت ملی۔ مےں نے ہر مصنف مےں طبع آزمائی کی۔ تاہم تحقےق اور تنقےد کی طرف زےادہ زور رہا۔ 

س کےا آپ سمجھتے ہےں کہ ملک مےں ادب زال پذےر ہے۔ 
جواب دےکھےں جب کسی ملک مےں تمام ادارے اور پورے معاشرہ زوال پذےر ہو تو ادب پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہےں۔ اےک وجہ ےہ بھی ہے کہ اب معاشرے مےں کوئی اےسی تحرےک نہےں ہے جس سے قلم کاروں مےں تحرےک پےدا ہوا۔ ماضی مےں جتنے بڑ ¸ قلم کار آپ کو نظر آتے ہےں ان مےں سے بےش تر ترقی پسند تحرےک سے وابستہ تھے۔ 

س کےا موجودہ ادب ہمارے عہد کی عقاسی نہےں کرتا؟ 
جواب اےسا بھی نہےں، حالات کی وکاسی تو ہورہی ہے۔ ذرا پےچھے جائےں ضےاءدور مےں تو کتنی سختےاں تھےں لےکن قلم کار پھر بھی اپنی رائے کا اظہار کرتے تے۔ آج بھی ہمارے اہل قلم اپنے معاشرے اور مسائل کی نشاندہی کررہے ہےں ہم ےہ نہےں کہہ سکتے کہ وہ اپنے فرائض سے غفلت برت رہے ہےں۔ 

س ہمارے ےہاں اکثر تنقےد نگار اہل نہےں لےکن وہ بظاہر بڑے ہےں ، کےا اےسا ہی ہے؟
جواب مےرا تجربہ ےہ کہتا ہے کہ اےک تنقےد نگار کو وسےع المطالعہ ہونا چاہئے اسے عالمی ادبےات کے بارے مےں معلوم ہو۔ لےکن ہمارے ےہاں اکثر تنقےد نگار اس پےمانے پر پورا نہےں اترتے۔ 

س ہمارے ےہاں بک کلچر نام کی کوئی چےز نہےں اس کی وجہ؟
جواب وجوہات تو بےشمار ہےں اپنی بات کرتا ہوں ۔ مےرے والد صاحب ادےب نہےں تھے اب اےسا ماحول نہےں ہے۔ مےں سمجھتا ہوں کہ شروع سے ہمارے سے مطالعے کا مزاج ہی ڈولپ نہےں ہوا ناخوانددگی اپنی جگہ مہنگائی کا بھی کردار ہے لےکن جو لوگ افورڈ کرسکتے ہےں ان کے بارے مےں بھی کےا کہےں وہ پانچ ہزار روپے رات کے کھانے پر تو لگادےں گے لےکن 500 روپے کی اےک کتاب نہےں خرےد سکتے۔ 

س آخر مےں نوجوانوں کے کوئی خاص پےغام دےنا چاہئےں گے؟
جواب نوجوانوں کے لئے مےرا پےغام بہت سادہ سا ہے کہ آپ خود کے ساتھ انصاف کرے اگر آپ کے والدےن آپ کو پڑھا رہے ہےں تو خود کو کامےاب انسان بنا کر ان کے سامنے پےش کرے۔ 

Labels: ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home