Saturday, December 26, 2015

traffic system

See Composing mistakes also.
U did not write proper file name
there are many composing mistakes, which u can see on web site  . 
 Mind it Feature, profile are reporting based and u failed to fullfil this requirement.
U sent two investigative reports after deadline. However these two pieces  are not investigative reports but are article.  and can not be entertained. 
 In case of interview, profile and feature pic is must. 
Roll # 2k12/MC/13
آرٹےکل 
"ہمارا ٹرےفک سسٹم اور ڈرائےونگ رائےٹس "
امجد علی
کہتے ہےں کہ اگر کسی ملک کی تہذےبی اقدام نظم و ضبط کا مطالہ کرنا ہے تو اس کی شہراہوں پر ٹرےفک سسٹم کو دےکھ لےجئے۔ آپ اس معا شرے کے اخلاقی روےے کو بخوبی سمجھ جاےں گے ہم اپنے شہروں کے بات کرےں تو ہمارا ٹرےفک سسٹم افرا تفری لا قانونےت کی بدترےن مثال ہے۔ گاڑی چلانے والے اپنے ساتھ درجنوں انسانوں کی جان ہتھےلی پر لئے پھرتے ہےں۔ اور پھر ےہ کہ اس قتل کی نہ کوئی سزا ہے اور نہ قانون پر عمل درامد ہو پاتا ہے۔ بے ضمےری کے خمےر سے گندے ہوئے ان قاتلوں کے پاس ملامت کی کوئی رمق نہےں جو ٓئندہ انہےں سدھار نے کی کوشش ہوسکے 

چند سال پہلے کی بات ہے کہ مےرے بہنوئی گھر کے قرےب اےک روڈ اےکسےڈےنٹ مےں بری طرح زخمی ہوئے۔ آس پاس کے لوگوں کے ڈرائےور کا ڈرائےونگ لائسنس ضبط کرلےا اور بھنوئی صاحب دو سال تک بستر پر پڑے رہے گاڑی کے مالک نے تاوان تو کےا ادا کرنا تھا الٹا اس نے اپنے ڈرائےونگ لائسنس چوری ہونے کی اےف ، آئی ، آر کٹوائی اور نےا لائسنس بنوا لےا۔ جن کے پاس لائسنس نہےں ہےں اور وہ گاڑےاں چلا رہے ہےں وہ تو مجرم ہےں ہی لےکن جو لائسنس ےافتہ ہےں ان کے بارے مےں بھی سوچنا ہوگا کہ ڈرائےونگ لائسنس کے ساتھ اےک اچھا شہری بننے کی تربےت ہے لازمی ہے۔ ہمارا ےہاں کمرشل گاڑےوں کے ڈرایور زےادہ تر ان پڑھ ہوتے ہےں ۔اور دہی علاقوں سے آتے ہےں ان چند دن مےں گاڑی چلانا سےکھ کر کام شروع کردےتے ہےں ان کی گاڑی چلانے کا انداز موت کے کنوےں مےں گاڑی چلانے جےسا ہوتا ہے سنا ہے کہ اصول تو ےہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ڈرائےونگ لائسنس نہےں اور اس سے کسی اےکسےڈنٹ مےں کوئی شخص جاں بحق ہوجاتا ہے تو ڈرائےوت کو سزائے موت ہوسکتی ہے۔ مگر کبھی اےسا ہوتا دےکھا نہےں۔ 

ہمارے ملک مےں قانون پر عمل درآمد تو وےسے بھی مشکل کام ہے پھر محض لائسنس بنا کر کسی کے قتل کا لائسنس حاصل کرنا تو اور بھی خوفناک بات ہے ہمےں لائسنس کے ساتھ روڈ پر گاڑی چلانے کی اخلاق تربےت بھی درکار ہے اےک ذمہ دار شہری کے فرائض کو جاننا اور ان پر عمل کرنا اس کے لےے حکومت کو مختلف ورکشاپز کا انتظام کرنا ہوگا مختلف ادارے اپنے ورکرز کو گاڑےوں کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹرےفک کے اصول و ضوابط کی تےاری بھی کروائےں ےہ عمل معاشرے کے لئے بہت کار آمد ہوگا۔ 

چند دن قبل ٹرےفک پولےس کی جانب سے اےک مستحسےن علان کےا گےا ہے کہ ڈرائےونگ لائسنس کے بغےر گاڑی چلانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔ لائسنس بنوانے کی مدت مےں مزےد اےک ماہ کی توثےق کردی گئی ہے۔ 

 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر کراچی مےں رجسٹرڈ گاڑےوں کی تعداد 38 لاکھ ہے لےکن لائسنس صرف 12 لاکھ جاری ہوئے ہےں۔ اس کا مطلب ہے کہ 26 لاکھ افراد بنا لائسنس کے گاڑی چلا رہے ہےں۔ جنہوں نے اب تک لائسنس بنوانا ضروری نہےں سمجھا کب سے گاڑی بنا لائسنس استعمال کر کے لوگوں کی زندگی سے کھےل رہے ہےں اب کاروائی و سزا کی سخت دھمکی کے بعد سب ہی ڈرائےونگ لائسنس کے دفاتر کی جانب سے ہی ڈرائےونگ لائسنس کی دفاتر کی جانب دوڑ رہے ہےں اس قدر بڑی تعداد مےں لائسنس کا اجرا اتنی جلدی نہ ممکن نظر آتا ہے۔ لائسنس افسر روزانہ 100 سے 150 فامز جاری کےا کرتے تھے اب روزانہ 5000 فامز جاری کئے جارہے ہےں اس وقت لائسنس دفاتر کے سامنے بد انتظامی اور افرا تفری نظر آتی ہے لگتا ہے کہ سارا شہر وہےں امنڈ آےا ہو عملے کے ساتھ شہری بھی پرےشان ہےں کہ کسی طرح جلد از جلد لائسنس مل جائے۔ لےکن کےا اس طرح تمام لوگوں کو لائسنس جاری ہوسکتا ہے۔ اگر ہو بھی گےا تو محض اےک کاغذ کا پروانہ ثابت ہوگا۔ 

 اشاروں کی پہچان حادثوں کے روک تھام کے لےے وضح کے گئے اصول و ضوابط اور لائسنس کی اےجہ سےکھنے کے لےے کوئی انتظام ہی نہےں جبکہ پہلے تو اس کا انتظام ہونا چاہئے ہمارے نا شعور شہری لاکھون روپے خرچ کر کے گاڑی خرےدتے ہےں بد قسمتی دےکھئے کہ اتنی قانون شکنی کے چند ہزار روپے خرچ کر کے گاڑی چلانے کی تربےت لےنے کا لائسنس موجود نہےں کےا ہم اےک مہذب معاشرہ کہلانے کے حقدار ہےں؟ جہاں 26 لاکھ افراد قتل کے لائسنس کے لےے پھرتے ہوں ہم لوگ خوا مخواہ جےمز بونڈ کے (لائسنس ٹو کل) (Licence to Kill) کو دےکھ کر رشک کرتے ہےں۔ ےہ معمولی لائسنس تو ہمارے ےہاں سب کو حاصل ہے۔ ٹرےفک پولےس کی جانب سے ڈرائےونگ لائسنس بنوانے کے حکم نامے نے ہمارے معاشرے مےں پھےلی لا قانونےت کی اور پول پی کھول دی ہے ہم دن بہ دن مسائل کی دل دل مےں دھنستے جارہے ہےں۔ 

بے ضبطگی کی خبرےں ہمارے نظام مےں گہری ہو چکی ہےں اس کا اندازہ تھوڑی دےر شہرا ہوں پر کھرے ہو کہ ہمارے 

ٹرےفک سسٹم کو دےکھ کر بخوبی کےا جاسکتا ہے۔ 

Labels:

Mir Haram of Hyderabad feature


Name: Amjad Ali
Roll # 2k12/MC/13
فیچر
میر حرم
امجد علی
کسی بھی ملک کے تاریخ ورے اس ملک کی شان ہوتے ہیں مگر پاکستان مین تاریخی ورثوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو سو تیلی ماں اپنے سوتیلے بچوں کے ساتھ کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں صرف چند ایک تاریخی ورثوں کو چھوڑ کر باقی تمام تاریخی ورثوں کے نشانات آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے مٹتے جارہے ہیں جوکہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے تاریخی ورثون گامٹ جانا بلکل ایسے حی ہے جسے ہم اپنے اباﺅ اجداد کو بھلا دیتے ہیں ۔ انہیں تاریخی ور دثوں میں سے ایک ورثہ حیدر آباد کا پکہ قلعہ بھی ہے جو دن بہ دن اپنی شناخت کھوتا جارہاہے۔
نہ صرف حیدر آباد بلکہ پورے پاکستان کا یہی حال ہے صرف چند ایک تاریخی ورثون کو چھوڑ کر باقی سارے تاریخی ورثے اپنی شناخت کھوتے جارہے ہیں انہیں تاریخی ورثوں میں سے ورثہ حیدر آباد پکہ قلعے میں واقع میر حرم بھی ہے آیے ذرا پکہ قلعہ اور میر حرم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔

شاہی قلعہ جو پکہ قلعہ کے نام سے جانا جاتا ہے کلھوڑون کے بادشاہ غلام شاہ کلھوڑو نے 1768ءمیں تعمیر کیا تھا یہ قلعہ ایک پہاڑی پر تعمیر کیا گیا تھا غلام شاہ کلھوڑو نے جب حیدر آباد شہر میں قدم رکھاتو انہوں نے اس شہر کو سندھ کا دار الحکومت بنا دیا تھا اور پھر اس شہر میں ترقیاتی کام کروائے اور تاریخی عمارتیں بنوائیں۔سندھ میں تالپوروں کے دور حکومت میں میر فتح علی خان نے1789 ءمیں اپنا دار لحکومت حیدر آباد میں ترتیب دیا انہوں نے اپنے دور حکومت میں پکہ قلعہ مین بہت سے جرم بنوائے جس میں بادشاہوں کے خاندان رہتے تھے اور بہت سی مسجدیں بھی بنوائین جو کہ آج بہت کم پائی جاتی ہیں۔

ان حرموں میں سے ایک حرم میر حرم کے نام سے آج بھی ایک بلڈنگ نظر آتی ہے یہ عمارت حرم میران شاہ تالپور 1784ء تا 1843ءکے نام پر بنائی گئی حرم میران تالپور کی تعلیم میر فتح علی خان تالپور کے عہد حکومت میں کی گئی یہ عمارت ایک مربع نما کمرے پر محیط ہے جس کی لمبائی و چوڑائی 281/2 ساڑھے اےھایُس فٹ اور اونچائی15 فٹ ہے کمرے کے چارون اطراف 2 لکڑی کا برامدہ ہے ۔مغربی بر آمدہ نسبتاً بڑا ہے کمرے کی ہر دیوار کے وسط میں ایک دروازہ ہے مغربی دروازہ لکڑی کی کندہ کاری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے کمرے کے جنوبی اور شمالی اطراف مین دو دو کھڑکیاں نسب کی گئی ہیں کمرے کا اندرونی حصہ نکاشی کے دلکش ڈیزائنوں سے مزین ہے جبکہ لکڑی کی چھت نہایت خوبصورت روغنی کام سے آراستہ ہے 
میر فتح علی کان تالپور کے بعد یہ عمارت دوسرے حکمران میران حیدر آباد مثلاً میر غلام علی کان تالپور، میر کرم علی کان تالپور میر مراد علی خان تالپور میر نور محمد خان تالپور اور میر محمد نصیر تالپور کے استعمال میں بھی رہی ہے۔

یہ تھا پکہ قلعے مین واقع میر حرم کا حال جو آج اپنے حال پر رور ہے آج یہ عمارت اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی ہے کیونکہ انتظامیہ کی طرف سے اس عمارت پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہماری کم زرفی کا یہ عالم ہے کہ ہم نے پکے قلعے جیسی تاریخی عمارت کو توڑ پھوڑ کر اپنے گھر بنالیے ہمیں اپنی تاریخی ورثون کی بلکل قدر نہیں ہے۔ 

 زرا سوچیے اگر ہم مصر میں ہوتے یا احرام مصر پاکستان مین ہوئے تو ہم انہیں بھی توڑ پھوڑ کر اپنے کام میں لے لیتے اور ہماری عوام ان پر اپنے گھر بنا کر بیٹھ جاتی۔اگر ہمارے پاس افل ٹاور ہوتا تو اس کہ بھی پان کی پیکیں پھینک پھینک کر اس کا حال بے حال کردیتے اگر ہمارے پاس اسٹچیو آف لیبرٹی ہوتا تو اس کے ہاتھ مین جو چراغ ہے وہ شاید غائب ہوتا۔

اس تاریخی ورثوں کی ناقدری کی ذمہ دار صرف انتطامیہ اور حکومت ہی نہین بلکہ عوام بحی برابر کی شریک ہے ہمیں دوسری قوموں سے کچھ سیکھنا چاہیے اور اپنے تاریخی ورثوں کی قدر کرنی چاہیے۔
 دسمبر 2015 
 Imrpover failure

Labels:

Interview of engineer Sheeraz Channa

In interview there are no Question umbers. 
Name: Amjad Ali
Roll # 2k12/MC/13

انٹرویو
انجینئر شیراز علی چنا
امجد علی
انجینئر شیراز علی چنا حیدر آباد کے علاقے لطیف آباد میں رہائش پزیر ہیں آپ کی پیدائش سندھ کے مشہور شہر سہون میں ہوئی آپ نے ابتدائی تعلیم یعنی پرائمری تعلیم سہون سے ہی حاصل کی پھر آپ کے والد کا تبادلہ حیدر آباد میں ہوا یہاں آکر آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی اور کیڈٹ کالج پٹارو سے میٹرک اور پھر انٹر کا امتحان پاس کیا اور پھر مہران یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی آپ نے اپنی زندگی کا کچھ حصہ جرمنی میں گزاراسی وجہ سے جرمنی اور پاکستان کے نظام تعلیم کے حوالے سے چند سوالات کیے جن کا جواب یہ ہیں۔

سوال نمبر1۔ جرمنی اور پاکستان کے نظام تعلیم میں کتنا فرق ہے؟
جواب  جرمنی اور پاکستا کے نظام تعلیم میں اتنا ہی فرق ہے جتنا زمین اور آسمان میں کالے اور گورے میں اور امیر اور غریب میں فرق ہے۔ ہمارا تعلیم نظام ابھی تک وہی فرسودا نظام ہے ہمارے تعلیمی نظام میں کوئی جدت دیکھنے کو نہیں ملی جو تعلیم ہم نے آپ اسکول کے زمانے مین پڑھی تھی وہ ہی نساب ہمارے بچے پڑھ رہے ہیں دنیا تعلیم کے معاملے میں بہت آگے نکل گئی ہے اور ہم ابھی بھی وہیں 50سال پرانے نظام میں پھنسے ہیں۔

سوال نمبر2۔جرمنی میں تعلیم اور اسکول کا نظام افعال اور فرانس جرمنی میں اسکولوں کے ذمہ دار کون ہیں؟
جواب: اسکول ایک قومی معملہ ہے اسی وجہ سے اسکول کا نظام قانونی سطح پر کنٹرول نہیں کیا جاسکتا وفاقی صوبوں کے وزارت تعلیم کے ادارے جو نہ صرف تعلیمی عملے کے لیے بلکہ نصاب کے بھی ذمہ دار ہیں یہ ادارے اسکول انتطامیہ کے ساتھ تعلیمی نکات پر مل کر کام کرتے ہیں یعنی جوائنٹ سسٹم کے تحت اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں اسکولوں کے عملے کے اخراجات اور دیگر مواد مثلاً کنسٹریکشن ڈزائن، انٹر ٹینمنٹ، صفائی ، کینٹین ، تنظیم و تدریسی سامان بلیک بورڈ فرنیچر نصابی کتب اور انسائکلو پیڈیا ، ٹیلی فون اورپروجیکٹ دیگر آلات کا بلدیہ ذمہ دار ہوتا ہے ۔اسکول کے نظام کو مندرجہ ذیل کٹاگیری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پرائمری اسکول تمام بچے ابتدائی تعلیم کا آغاز پرائمری اسکول سے کرتے ہیں صبح آٹھ سے دن بارہ بجے تک کلاسس ہوتی ہیں۔سیکنڈری اسکول جرمنی میں سیکنڈری اسکول سے مرادجونیئر ہائی اسکول یا ہائی اسکول جہاں بچے پانچویں سے دسویں کلاس تک تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
کالج سسٹم میں فرسٹ ایئر سے تھرڈ ایئر تک کلاسس ہوتی ہیں اس کے بعد طالب علم اپنے مستقبل کو مد رنظر رکھتے ہوئے یونی ورسٹی میں قدم رکھتے ہیں۔

سوال نمبر3۔ لازمی تعلیم کیا ہیں اور کون کتنی دیر تک اسکول میں رہتا ہے؟
جواب  جرمنی مین دسویں کلاس تک تعلیم لازمی قراردی گئی ہے ہر بچے پر فرص ہے کہ وہ دسویں تک تعلیم حاصل کرے اہم بات یہ ہے کہ اگر طالب علم پڑھائی میں کمزور ہے اور اگر ساتویں یا آٹھویں میں 2 مرتبہ فیل ہوتا ہے تو اسے اسکول سے خارج کرکے اس کے پسندیدہ پروفیشن کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص انسٹیٹیوشن میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں اسے تقریباً 3 سال کا کورس کروایا جاتا ہے۔

سوال نمبر4۔ کیا بچے جرمن اسکول سسٹم اور نطام سے خوش ہیں؟
جواب: نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جرمنی میں چھ سے چودہ سال کی عمر کے بچے اس سڑے ہوئے وحشیانہ میڈیا سسٹم کے بجائے اپنی فیملی سے محبت کرتے ہیں اور بخوشی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں بچوں کی اس سوچ کے بارے میں برلن سے شائع ہونے والے ایک میگزین اور بونسیف کے ادارے نے مفصل رپورٹ تیار کی ہے جس میں بتا یا کیا ہے کہ ملازمت کرنے والے والدین کے پاس وقت کی کمی کے باوجود بچوں کو اس بات کا قطعی افسوس نہیں کہ ان کے والدین انہیں کم وقت دیتے ہیں۔

سوال نمبر5۔ تعلیم نظام میں بہتری کی ضرورت ہے؟
جواب: دیکھیں تعلیمی نظام صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر ایک عام انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس نظام کی قدر کرے اور اس کی پروی کرے حکومت کا کام ہے ہمیں ایک نظام دینا اور ہمارا کام ہے اس نظام کی حفاظت کرنا اگر اساتذہ اپنے فرائض سر انجام نہیں دے رہے تو ان کے خلاف ہمیں بھی کاروائی کرنی چاہیے اور حکومت کو تعلیمی نظام پر فوقیت کے لیے متوجہ کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے اتنے سیاستدان اپنے مفادات کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں کبھی تعلیمی نطام کے ردو بدل کے لیے تو کوئی سڑک پر نہیں نکلا۔ ہمیں مغرب سے تعلیمی نظام کو سیکھنا ہوگا اور وہ نظام اپنے ملک میں رائج کرنا ہوگا جب ہی ہم مغرب کے شانہ باشانہ کھڑے ہوسکتے ہیں۔

سوال نمبر6۔ تعلیمی نظام دہشت گردی سے محفوظ کیسے ہوگا؟
جواب: میرے خیال میں ہم دہشت گردی کے چنگل سے جب تک نہیں نکل سکتے جب تک اس ملک کا پورا کا پورا نظام نہیں بدلتا۔اب میں آپ کو چند باتین ایسی بتاتا ہوں جس کی وجہ سے ہمارے ملک کا صرف تعلیمی نظام ہی نہیں بلکہ پورا کا پورا سسٹم ہی خراب ہے۔اس ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر اس میں اسلام کے قوانین پر کوئی عمل درآمد نہیں ہے قانون انگریز کا ، سزائیں بھی انگیریز کی ، انہوں کے رہن سہن کا انداز بادشاہوں جیسا، بینکنگ سسٹم یہو دیوں کا صرف تعلیمی نظام ہے جو صرف ہمارا اپنا ایجاد کیا ہوا ہے جس میں ہم ان کو فولو نہیں کرتے باقی سب چیزوں میں ہم ان کا سسٹم وہ بھی ملاوٹ کا سسٹم اگر پورا ان جیسا سسٹم اپنا لیں تو شاید ترقی کرلیں پر ہم آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بنے ہوئے ہیں جبھی تو یہ نام نہاد جہادی ہتھیار اٹھا کرشر یعت کے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیںیا تو اس ملک کو سیکو لر ریاست بنادو یا پھر اگر اسلامی ریاست بنانی ہے تو شر لعت کا نفاذ ہونا صروری ہے ورنہ ہم پوری زندگی ایسے ہی پستے رہیں گے۔

سوال نمبر7۔تعلیمی نظام میں تباہی کا ذمہ دار کون؟
جواب: تعلیمی نظام میں تباہی کے ذمہ دار ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے حکمران ہیں مگر جیسے کہ میں نے پہلے کہا کہ ہم خود بھی اس نظام کی تباہی کی وجہ ہیں ہم آنکھ پر پٹی باندھ کر چپ چاپ بیٹھے تماشہ دیکھتے رہتے ہیں اور سارا ملبہ حکومت پر ڈال دیتے ہیں ارے حکومت کو لانے والے بھی تو ہم ہی نہیں تو ہم بھی تو اس کے ذمہ دار ہوئے نہ۔

 سوال نمبر8۔آخر میں چند اقدامات ایسے تجویز کردیں جو ہمارے تعلیمی نظام کے لیے بہت ضروری ہیں؟

جواب : سب سے پہلے تو ہمیں تعلیمی نطام میں تعلیم کا بحٹ بڑ ھا نا ہوگا GPکے 2 پرسٹ سے تعلیم نہیں چلتی ۔اس کے بعد گراﺅنڈ لیول پر تعلیم پر توجہ دینی ہوگی گورنمنٹ اسکولز میں اساتذاہ سختی کرنی چاہیے اور ان کے حالات اور تعلیمی حالات کو بہتر بنانا ہوگا اساتذا کا سلیکشن میرٹ پر ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتح پرائیوٹ اسکولوں کو گورنمنٹ کے انڈر میں لے کر ایسا سسٹم ہو کے ہر بچے کی فیس اور اخراجات گورنمنٹ ادا کرے اسکول مالکان کو بچے مفت تعلیم حاصل کریں۔ یہ جو بڑے اسکول ہیں سٹی فاﺅنڈیشن، بیکن وغیرہ حکومت کو چاہیے کہ ان کے مالکان کو ان کی انکم کے مطابق پیسہ دیں اور اسکول حکومت کے انڈر مین کام کرے عملہ وہ ہی رہے بس پیسہ حکومت فراہم کرے بچوں سے تعلیم کے اخراجات نہ اٹھوائین اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں میںبچوں کو سہولیات فراہم کی جائیں جیسے کہ کچھ دنوں پہلے انڈیا میں سرکاری اسکولوں میں ایک سسٹم متعراف کروایا جس میں بچوں کو اسکول میں دوپہر کا کھانا دیا جاتا تھا ور اچھا کھانا دیا جاتا تھا اس سے غریب غربہ جو ہیں وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے پر زور دینگے۔اور بچوں کے لیے بھی ایک لالے ہوگی جس کے غط وہ تعلیم کی طرف راغب ہونگے۔
 دسمبر 2015 
 Imporver failure

Labels:

Profile of Imtiaz Ali by Amjad Ali

In profile pic is must. It is also reporting based and u should have talked  with people close to him, expert opinion from the filed to which he belongs. 
In profile observation is needed and facts are interpreted in interesting manner, making things news worthy


Name: Amjad Ali
Roll # 2k12/MC/13

پرو فائل 
امتیاز علی خان
امجد علی
امتیاز علی خان حیدر آباد علاقے لطیف آباد یونٹ نمبر9 میں رہتے ہیں آپ کی پیدائش 3 مئی 1970ءمیں حیدر آباد میں ہی ہوئی پیدائش کے چند سال بعد آپ پولیو کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے آپ پر عمر بھر کی معزور ی کا ساتھ آگیا بچپن میں اس معزوری کا آپ کو احساس اتنا نہ ہوا آپ کے والد ایک پڑھے لکھے گھر انے سے تھے اور والدہ بھی پڑھی لکھیں شخصیت تھیں انہوں نے بچپن سے ہی آپ کو تعلیم سے محبت کا درس دیا یہ ہی وجہ تھی کہ پولیو کے خطرناک مرض کے باوجود آپ میں کچھ کر دکھانے کی لگن اور جذبہ تھا آپ اپنی معزوری کو نظر انداز کیا اور اپنے آپ کو ایک عام انسان سمجھتے ہوئے اپنی تعلیم پر فوقیت دی۔ 

زندگی کے بہت سے موڑ پر آپ کو یہ احساس ہوا کہ مین ایک عام انسان نہیں ہوں میں عام انسانوں سے کمتر ہوں مگر پھر بھی ہر موڑ پر آپ کو اپنی والدہ کی وہ بات یاد آئی کہ
   بیٹا یہ معزوری تو بس ایک امتحان ہے ہم اس سے لڑکر اسے ہر ا سکتے ہیں اور ہمارا ہتھیار ہے تعلیم
 بس یہ ہی وہ جملہ تھا جو زندگی کے ہر موڑ پر ان کی حوصلہ افزائی کرتا تھا آپ نے اپنے میٹرک کے امتحان میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور پھر انٹر کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا ۔احساس کمتری نے ایک بار پھر آپ سے کہا کہ بس تعلیم کو خیر باد کہہ کر کوئی کام شروع کردیتا ہوں پر سوچا کہ اس مرض کے ساتھ میں کام کیا کرونگا بس ایک تعلیم ہی ہے جو مجھے اس مرض سے لڑنا سکھا سکتی ہے آپ نے پھر اپنی ساری توجہ تعلیم پر ہی صرف کردی اور پہلے گریجویشن اور ماسٹر میں بھی بہتر ین نمبروں سے کامیابی حاصل کی ۔

تعلیم مکمل کرنے کے چند عرصے بعد ہی انہوں نے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ میں سرکاری نوکری کے لیے درخواست دی اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر BPS-14 کی سرکاری نوکری پائی اور پھر زندگی ایک نئے موڑ کی طرف چلی اب انہیں تعلیم سے بے حد محبت ہوگئی تھی کیونکہ تعلیم کے ہتھیار سے انہوں نے معزوری کو شکست دے دی تھی اب ان کے اندر احساس کمتری کا احساس بھی ختم ہوگیا اور انہوں نے یہ بات سیکھ لی تھی تعلیم کے ذریعے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے اس ہی وجہ سے تعلیم کی بے پناہ محبت نے آپ کو تعلیم آگے بڑھانے کا مشورہ دیا تو آپ نے اپنی ڈیوٹی ٹائمنگ کے بعد یعنی شام 7 سے رات 10بجے تک کے لیے ایک سول سروس اکیڈمی بنائی جس میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے اور خاص طور پر معزور بچوں کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ان کے دماغ میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ تم کسی سے کم نہیں ہو تم کچھ بھی کرسکتے ہو۔اور اپنی ماں کے کہے ہوئے جملے کو اکیڈمی کی دیوار پر بڑے بڑے اور واضح الفاظ میں تحریر کروایا ہوا ہے کہ : "معزوری تو بس ایک امتحان ہے ہم اس سے لڑ سکتے ہیں اسے ہر ا سکتے ہیں اور ہمارا ہتھیار ہے تعلیم"۔

جب ایک معزور شخص تعلیم کا سہارا لے کر اتنی آگے بڑھ سکتا ہے تو پھر ہم کیوں نہیں ہمیں بھی تعلیم کو اپنی بنیاد بنانی چاہیے اور تعلیم کو اپنی زندگی میں ناگزیر کردینا چاہیے کیونکہ یہ تعلیم ہی ہے جس کی وجہ سے مغرب اور مشرق میں زمین آسمان کا فرق ہے یہ تعلیم ہی ہے جس کی وجہ امیر اور غریب میں فرق ہے علم انسان کو دنیا میں بلند و بالا مقام پر پہنچا دیتا ہے۔

دسمبر 2015 
Imrpover failure

Labels:

Proifle of Dr Syed Khalid Hussain


ڈاکٹر سید محمد خالد حسین
پروفائیل: سندس قریشی
سید محمد خالد ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ 29 جولائی 1957 کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آباو ¾اجداد کا تعلق انڈیا کی ریاست پٹیالہ کے ایک چھوٹے سے شہر نارنول سے تھا۔تقسیم ہند کے بعد ان کا گھرانہ بھی ہندوستان کے مہاجرین کے ساتھ پاکستان آکر آباد ہوا۔

 اوائل میں انہیں کافی دشواریاں پیش آئیں۔ آپ نے اپنی کم عمری میں ہی غربت کا سامنا کیا مگر پڑھنے کی لگن نے انہیں غربت کے آگے ہار نہیں ماننے دیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاڑکانہ میں ہی حاصل کی اور مزید تعلیم کی خواہش انہیں حیدرآباد لے آئی۔

   حیدرآباد میں قیام آسان نہ تھا اور خاص کر جب ان کے پاس اخراجات کے لیے کوئی ذریعہ بھی نہ تھا۔ یہاں آکر مسلم کالج میں داخلہ لیا اور ٹیوشنز کے ذریعے اپنے حالات سے مقابلہ کےا۔کبھی میڈیکل اسٹور پر تو کبھی بطور سیلزمین بھی کام کرتے رہے۔ 

   1980ءکی دہائی میں انٹر پاس کر کے LUMHS میں داخلہ لیا اس وقت    LMCسندھ یونیورسٹی کا کالج تھا جہاں طب کی تعلیم دی جاتی تھی،یہ دور انکے لیے کڑا امتحان رہاکیونکہ دن رات کی پڑھائی کی وجہ سے مختصر اوقات میں کام کرنا دشوار تھا لیکن ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔اس لیے پڑھائی کا بھی حرج ہواجس کی وجہ سے کئی پیپرز میں انہیں ناکامی بھی ہوئی مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری اور دن رات محنت کرتے رہے۔

   اپنی ناکامی کو انہوں نے کامیابی کی طرف قدم سمجھا اور 5 سال کی انتھک محنت سے انہوں نے ایم بی بی ایس پاس کیا۔ یہ 1988 ءکا دور تھا جس کے بعد ہاﺅس جاب کے دوران وہ عملی طور پر اپنے پیشے سے وابستہ ہوئے ۔ حالات کچھ بہتر ہوئے تو انہوں نے نیوروسرجن بننے کے لیے تگ ودو شروع کی جس میں کامیابی نے ان کے قدم چومے۔

    نیوروسرجن بننے کے بعد انکی پہلی پوسٹنگ کراچی کے جناح ہسپتال میں ہوئی اور اس کے بعد کراچی کے ہی مختلف ہسپتالوں میں خدمات انجام دیے۔ اس کے بعد ان کا تبادلہ سول ہسپتال سکھر میں کیا گیا جہاں اپنی انتھک محنت اور کاوشوں سے پہچانے جانے لگے۔ سندھ میں ان کا تبادلہ حیدرآباد میں ہوا جہاں انہیں بطورمیڈیکو لیگل آفیسر تعینات کیا گیا۔ 

پانچ سال کے عرصے میں انہیں کئی اعزازات حاصل ہوئے جن میں ان کی تعلیمی کارکردگی قابل ذکر ہے۔اپنی سروس کے دوران ہی انہوں نے مختلف شعبوں میں کام کےا جس کے بعد انہیں آر ایم او(Resident medical officer) پر ترقی دی گئی اور موجودہ دور میں بھی وہ اسی عہدے پر حیدرآباد سول ہسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

   اپنے خاندان کے بارے میں بتاتے ہیں کہ میرے والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر غریبوں کی مدد کروں مگر انہیں یہ افسوس ہمیشہ رہاکہ وہ مجھے سپورٹ نہ کرسکے۔مجھے خوشی ہے کہ ان کے آخری ایام میں وہ آغا خان ہسپتال میں زیر علاج رہے جہاں ڈاکٹرز ان کا بے حد خےال رکھتے تھے جسے دیکھ کر والد صاحب فرحت جذبات سے آبدیدہ ہوئے۔

ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ ذندگی میں میں نے جو کچھ پاےا وہ اپنے والدین کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے۔میں نے ان کی خدمت کی اور تب تک کرتا رہا جب تک میرے دل کو اطمینان نہ ہوا۔ طلبہ کی ہمیشہ ہی سے وہ حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ طلبہ جوان ہوتے ہیں اور ان میں جوش و ولولہ ہوتا ہے بس انہیں ایک تحریک کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر صحیح سے مل جائے تو یہ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔
د سمبر 2015
 ماس کام کے محمود غزنوی
Imrover /Failure
 Sundas Qureshi 



Labels:

Condition of Hyderabad roads

سندس قریشی
2k12/MC/106

حیدرآباد کی سڑکیں زبوں حالی سے تعمیرات تک۔

شعبہ ٹرانسپورٹ مختلف طریقوں سے ملکی اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ٹرانسپورٹ کاایک موثر بنیادی ڈھانچہ ملکی اقتصادی ترقی اور آبادی کے لحاظ سے لوگوںکے معیار زندگی کے لیے اہم ہے جبکہ سڑکیں ملک میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہیں کیوں کے سڑکیں لوگوں کی حرکت و سامان کی منتقلی ،ملک کے تمام حصوں کو جوڑے رکھنے کے علاوہ ملکی اقتصادی ترقی میں سہولیات فراہم کرنے اور غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں کیوں کے سڑکوں کی مرمت سے روزگار کے کئی مواقع فراہم ہوتے ہیں ، 

ایک اندازے کے مطابق ایک کلو میٹر کی پکی ومضبوط سڑک بنانے میںتقریباً ایک کروڑ روپے کے قریب تک کا خرچہ آتا ہے جبکہ اس ضمن میں ہر سال اربوں روپے روڈ اور رستوں کی مرمت کے لیے مختص کیے جاتے ہیں لیکن وہی پیسے استعمال نہ کرنے کے باعث اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والی سڑکیں مرمت کے بغیر زبوں حالی کا شکار ہوجاتی ہیں اور اسی حالت میں ہی استعمال ہو رہی ہوتی ہیں ۔ 

کافی عرصے کے بعد حیدرآباد کے چند علاقوں میں سڑکوں کی مرمت کا کام جاری ہے جبکہ چند ایسے بھی علاقے ہیں جن میں کام تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔کافی عرصے کے بعد حیدرآباد کے بنجر رسالہ روڈکی مرمت کی گئی ہے جس کے باعث وہاں پر درپیش آنے والا ٹریفک کا مسائل کافی حد تک ختم ہو گئے ہیں اسی طرح حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں بلدیاتی انتخابات سے قبل سڑکوں کی مرمت کا کام کروایا گیا ہے جن میں فردوس سینیما روڈ، قاضی قیوم روڈ، ٹمبر مارکیٹ،راجپوتانہ ہسپتال روڈ، لطیف آباد پونے 7نمبر کا روڈ، علی پیلس اور علمدارچوک ،وادھو واہ روڈ،الرحیم سینٹر روڈ، شہباز بلڈنگ، سندھ میوزیم روڈ جبکہ سینٹرل جیل سے ہالاناکہ تک کا روڈ کشادہ کر کہ وہاں پر موجود بس اسٹاپ کو دوسری جگہ منتقل کر کہ وہاں پرطویل عرصے سے درپیش ٹریفک کے مسئلے کو حل کر دیا گیا ہے۔ 

 جبکہ کافی سالوں سے خستہ حال گجرُاتی پاڑہ کے بنجر روڈ اور حالی روڈ کی مرمت کا کام بھی چند روز قبل شروع کیا گیا ہے، اسی کے برعکس گرونگر چوک پر کھڑے پانی اورجہاں ٹوٹی ہوئی سڑک مسئلہ ہے جسکی وجہ سے آئے دن سنگین قسم کے حادثات سے عام شہریوں کا سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ پھلیلی، پنجرہ پول۔پریٹ آباد، لیاقت کالونی، سرفراز کالونی، ٹاور مارکیٹ ودیگر حیدرآباد کی سڑکوں پر مرمت کی اشد ضرورت ہے ان راستوں پر ٹریفک کا مسلئہ معمول بنا ہوا ہے تاہم ابھی تک ان سڑکوں کی مرمت کا کام شروع نہیں ہوا ہے، 

شہر کی چند ایک سڑکیں ایسی بھی ہیں جن کی الیکشن سے کچھ روز قبل چھوٹی موٹی مرمت ہوئی اور آج دیکھیں تو وہ دوبارہ دھنس چکیں ہیں آبادی کا اہم حصہ جوباقی جو روز مرہ کی آمدورفت کے لئے استعمال ہوتا ہے مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے ۔اور جن علاقوں میں ترقیاتی کام جاری بھی ہیں تو وہ اتنی سست رفتاری ہیں کے شہریوں کے لئے اور بھی مشکلات کا باعث بن رہے ہیں ۔حیدرآباد میں داخلی راستوں کا نیٹ ورک ضلع سطح پر سڑکوں کے نیٹ ورک سے متصل ہے۔

حیدرآباد کی چھوٹی بڑی سڑکیں جو عام مسافروں و بھاری سامان لے جانے میں کام آتی ہیں انکی تقریباً پیمائش 1037.97 کلو میٹرز ہے۔ حیدرآباد میں واحد لطیف آباد کی سڑکوپںکے نیٹ ورک کی منصوبہ بندی لوہے کے گرڈ کی پیٹرن پر مشتمل ہے۔ اس حوالے سے حیدرآباد کو کئی سالوں سے نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ حیدرآباد کی زبوں حال سڑکیں اور چوراہے گنجان ہونے کے باعث ان پر حادثات کے خطرات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں کیونکہ 80 فیصد مسافر مختلف گاڑیوں سے سفر کرتے ہیں یہاں ٹریفک جام کا مسئلہ معمول بن گیا ہے جبکہ حیدرآباد میںشہریوں کو ڈرائیونگ کرنے میں سخت پریشانی کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ گھنٹوں گاڑی پھنسنے کے باعث پیسہ اور وقت ضائع کرنا پڑ تا ہے۔

زمہ داران کو چائیے کے حال ہی میں پاس ہونے والا بجٹ جو کہ یہاں کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی مرمت کے لئے مختص کیا گیا ہے وہ ان صحیح معنوں میں استعمال میں لاکر سڑکوں کا مرمتی کام ترجیحی بنیادوں پر اور جلد از جلد ختم کروائے تاکہ عوام کو روز مرہ کی ٹریفک جام کی مشکلات ، پیسے و وقت کی ضائع ہونے جیسے مسائل سے نجاد دلائی جا سکے اور شہر میں ترقی وخوشحالی لائی جائے۔

Labels:

Tuesday, December 22, 2015

فا سٹ فوڈز کے صحت پر اثرات : اجالا منصور

This can not be taken as investigative report
( اسائنمنٹ تحقیقاتی رپورٹ۔۱)

فا سٹ فوڈز کے صحت پر اثرات

تحقیق و تحریر: اجالا منصور 
حا لیہ دور میں یہ واضح تاریخ سے دیکھا جا رہا ہے کہ فاسٹ فوڈز نے ہمارے شہر حیدرآباد میں اپنی ایک مخصوص جگہ بنا

 لی ہے۔دیکھا جا ئے تو پچھلے چند سالوں کے اندر اندر ہی فاسٹ فوڈ کے اس رجحان نے تیزی پکڑی ہے ورنہ حیدرآباد میں اس سے پہلے روایتی کھانوں کو زیادہ ترجیح دی جاتی تھی لیکن اب حیدرآباد میں بھی فاسٹ فوڈز نے اپنا مقام بنالیا ہے۔دیکھا جاسکتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر حیدرآباد میں نئے ریسٹورانٹ کھل رہے ہیں،جس میں رول پوائنٹ اور برگر پوائنٹز اوّل نمبر پر ہیں لیکن اس قسم کا کھانا کھانے میں بھلے ہی لطف آتا ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحت پر بھی اس کے کافی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جو لوگ فاسٹ فوڈ زیادہ کھاتے ہیں ان میں وزن بڑھنے کی شکایت کافی موصول ہوتی ہیں ۔

ڈاکٹرز سے پوچھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ فاسٹ فوڈکے ایک سے ذیادہ نقصانات ہیں جو کہ درجہ ذیل ہیں :
 ۱۔موٹاپا:اس قسم کے کھانے کھانے والوں کا وزن غیر معمولی طور پر بڑھتا ہے اور پھر ان کے اندر سستی اور کاہلی آجاتی ہے نہ صرف یہ بلکہ ان کے جسم میں کولیسٹرول بھی بڑھ جاتا ہے جس کے باعث دل کا دورہ پڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔

 ۲۔فوڈپویئزننگ :
فاسٹ فوڈز کھانے سے نہ صرف وزن بڑھتا ہے بلکہ معدے کی بھی بہت سی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں،ناقص معیار کی اشیاءسے تیار کیئے جانے کی وجہ سے اس قسم کا کھانا کھانے سے پیٹ کی کافی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

 ۳۔ڈپریشن:فاسٹ فوڈز ڈپریشن کی بھی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ ایک رپوٹ کے مطابق دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ فاسٹ فوڈزیادہ کھاتے ہیں ان کو ڈپریشن کی بہت شکایت ہوتی ہے۔

  ان وجوہات کے علاوہ اور بھی ایسی کافی وجوہات ہیں جن کی بناءپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فاسٹ فوڈکا صحت پر ہر لحاظ سے بہت ہی منفی اثر ہوتا ہے اور ہماری نوجوان نسل کو چاہیئے کہ اس قسم کی اشیاءکا استعمال کرنے سے پہلے اس کے نقصانات پر بھی غور کریں۔ 

1) No proper file name, which should include ur name also. 

2) No ur name in the write-up
3) No roll and batch number, once i download how this will be identified that this is ur report.
4) Investigation reports are too small. there is no investigation they are rather articles. 
5) In investigation u have to go the on the spot, investigate and find out some thing hidden etc. As its report that means it is news and should have 5Ws plus 1H. 
6) sources from where u are getting this info, and attributions and quotes of sources, 
7) experts opinion 
8) point of view of both parties are also required. 
9) In such cases fotos are also required. 
10) u have used secondary data. 
11) Reports are too short. ur report No 2 is 360 words and same is the case of ur other reports
 12) I am afraid ur article on brands and reports are copy paste
May i post all this on FB group of ur batch along with reports etc

Labels:

برانڈز میں سیل اور سیل میں پروڈکٹز کا معیار: اجالا منصور

Plz see detailed note below
2انویستیگیٹو رپورٹ

برانڈز میں سیل اور سیل میں پروڈکٹز کا معیار

 انویستیگیٹو رپورٹ: اجالا منصور

     حیدرآباد کو پاکستان کے ان چند شہروں میں شمار کیا جاتا ہے جن میں قو می اور بین الاقوامی تمام برانڈز پائے جاسکتے ہیں،خواتین کا رش ویسے تو سال بھر ہی ان کے شو رومز اور ان کے آﺅٹلٹز پر دیکھا جاسکتا ہے لیکن جس دن ان برینڈز میں ایک اعلان ہوجائے اس دن خواتین اپنے بیشتر کام چھوڑ کت ان دکانوں کا رخ کر لیتی ہیں وہ اعلان ہوتا ہے سیل کا ،یہ ایک ایسا جادوئی لفظ ہے جو ہر مرد و عورت کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اگر سیل کسی برینڈ پر لگی ہو تو پھر تو وہاںتل دھاڑنے کی جگہ تک نہیں ملتی لیکن کیا ان سیلز کے لگنے سے کسی کا کوئی فائدہ ہوتا ہے؟اس چیز کا پتا لگانے کے لیئے ہم نے چند مشہور برینڈز کی سیل لگنے کا انتظار کیا تاکہ دیکھا جا ئے کہ آیا ان سیلز سے عوام کو کتنا فائدہ ہو رہا ہے اور کتنا بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔

  اس رپورٹ سے کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں ،جیسے کہ عوام سے گفتگو کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا ہے کہ جس کسی بھی برانڈ میں سیل لگتی ہے وہ ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں جسے انگریزی مین کہتے ہیں © ©”اپ ٹو“ اور اردو میں کہتے ہیں ”تک“ اس اصطلاح کے پیچھے ایک الگ ہی کہانی چھپی ہوئی ہے جہاں لکھا ہوتا ہے ۵۷ فیصد آف ہیں وہ یا تو ویسے ہی بہت سستے پروڈکٹز ہوتے ہیں جیسے کہ بیڈ شیٹز وغیرہ یا موزے جیسی چیزیں وغیرہ با قی موٹی چیزیں ان پر کوئی خاص قسم کی سیل نہیں ہوتی ۔اس کے علاوہ ایک اور چیز سامنے آئی ہے کہ کچھ برینڈز میں سیل تب لگتی ہے جب سیزن آف ہوجاتا ہے،جیسے کہ گرمی میں سوئٹرزپر سیل اور وہ بھی وہ سوئٹرز ہوتے ہیں جو کہ بک نہیں پاتے کیونکہ یا تو کوئی ڈیفیکٹ ہوتا ہے یا تو پھر اس کا معیار نا قابل استعمال ہوتا ہے ۔تو سیل نام صرف عوام کو وہ چیز بیچنے کے لیئے استعمال ہو رہا ہے جو عام دنوں میں فروخت نہیں ہو رہی ہوتیں۔
 دسمبر ۵۰۱۲۔
 امپروئر فیلﺅر


1) No proper file name, which should include ur name also.

2) No ur name in the write-up
3) No roll and batch number, once i download how this will be identified that this is ur report.
4) Investigation reports are too small. there is no investigation they are rather articles.
5) In investigation u have to go the on the spot, investigate and find out some thing hidden etc. As its report that means it is news and should have 5Ws plus 1H.
6) sources from where u are getting this info, and attributions and quotes of sources,
7) experts opinion
8) point of view of both parties are also required.
9) In such cases fotos are also required.
10) u have used secondary data.
11) Reports are too short. ur report No 2 is 360 words and same is the case of ur other reports

 Ujala Mansoor


Labels:

بیوٹی پروڈکٹز کی بڑھتی قیمتیں اور گھٹتے ہوئے سائز : اجالا منصور

Can we consider it an investigative Report? U should have gone thru lectures on the topics and seen the reports of other studnets.

تحقیقاتی رپورٹ ۔۳
بیوٹی پروڈکٹز کی بڑھتی قیمتیں اور گھٹتے ہوئے سائز

 تحقیق و تحریر: اجالا منصور

    موسم سرما کی آمد پر ہی لاکھوں کی تعداد میں مردوخواتین حضرات کاسمیٹک کی شاپز کا رخ کر لیتے ہیں کیونکہ یہ ایک
 ایسا موسم ہے جس میں جلد کوبہت زیادہ اثر پڑتا ہے جیسے کہ جلد کا پھٹنا اورخشک ہونا۔سب سے عام بات یہ ہے کہ سردی کے آتے ہی اس سے بچنے کے لیئے عورتیں اور یہاں تک کہ بہت سے مرد حضرات بھی کولڈ کریمز اور لوشنز کا استعمال کرتے ہیں اور کچھ خواتین پنی رنگت کا خیال رکھنے کے لیئے ایسی بیوٹی کریمز کا استعمال کرتی ہیں جو کہ ان کی جلد کو سردی کے اثرات اور نقصانات سے بچائیں اور ساتھ ساتھ ان کی رنگت کو بھی پھیکا نہ پڑنے دیں،لیکن اس موسم میں ایک ایسی حرکت ان پروڈکٹز بنانے والی کمپنیز کی طرف سے سامنے آتی ہے بس کا عام عوام کو علم تک نہیں ہوتااور نہ ہی وہ ان کی اس حرکت پر غور کرتے ہیں۔

   ایک تحقیق کے مطابق لوگوں کو پروڈکٹز پر درج کی ہوئی پروڈکٹز سے منسلک تفصیل پڑھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ،۰۰۱ میں سے ۴ فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جوکہ پروڈکٹز کی تمام تر معلومات پڑھنے میں دلچسپ ہوتے ہیں لیکن باقی عوام کو صرف اس پروڈکٹ کو استعمال کرنے سے مطلب ہوتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ان پروڈکٹز کی تفصیل دن بہ دن تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور جو ان تمام تبدیلیوں میں جو سب سے بڑی تبدیلی ہے وہ یہ ہے کہ ان پروڈکٹز کا سائز چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور ریٹز اس کے ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں، بظاہر دکھنے میں خواہ وہ صابن ہو،شیمپو ےا کوئی بھی کریم ےا لوشن اس کی مقدار اتنی ہی رہتی ہے مگر اس پروڈکٹ کی بوتل ےا پیکجنگ کا سائز بڑا ہو جاتا ہے لیکن اس بوتل پر جس جگہ اس کا وزن لکھا ہوا ہوتا ہے اسے وہ تبدیل کر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس پروڈکٹ کی قیمت بھی بڑھ جا تی ہے۔یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر زیادہ تر لوگ غور نہیں کرتے لیکن یہ بھی اپنی نوعیت کا آج کا ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے ،ایک تو سرکار کی طرف سے آئے دن لگنے والے نئے نئے ٹیکس نے عوام کا خون نچوڑ لیا ہےاور اوپر سے یہ کمپنیز جن سے لوگوں کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ بھی ایسا کرتی ہیں نہ صرف بیوٹی پروڈکٹز بلکہ کچھ معیاری کھانے پینے والی کمپنیز بھی اس پینترے کو استعمال کرتے ہیں تاکہ کمانے کا اور کسی چیز کی قیمت بڑھانے اور وزن گھٹانے میں عوام کو معلوم ہی نہ ہو ڈبے کا سائز بڑا کر اس کا وزن کم کر دیتے ہیں جو کہ اخلاقی طور پر بھی ایک غلط کام ہے۔ 
 Ujala Mansoor 
 Dec 2015

(نوٹ: برائے مہربانی جو نوٹ میں نے آپ کی رپورٹ نمبر ۱ اور ۲ میں لگایا ہے اسکو ٹھیک سے دیکھیںِ 

Labels:

Monday, December 21, 2015

Effects of cartoon characters on children

Are u sure this is not copied from  some other source?
آرٹیکل

 کارٹون کریکٹرز اور ان کے بچوں پر اثرات
 آرٹیکل تحریر: اجالا منصور

  یہ صحیح ہے کہ میڈیا کسی بھی معاشرے کے لیئے ایک زور آور تلوار کی حیثیت رکھتا ہے اور موجودہ دور میںکسی چیز کی تشہیر میںجس قدر مﺅثرکردار الیکٹرونک میڈیا نے اور پرنٹ میڈےا نے ادا کیا ہے کوئی ادارہ ایسی اہمیت کا حامل نہیں ہو سکتا۔

    مختلف تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ بڑوں کی نسبت بچے میڈیا سے اثرات زیادہ اور جلد لیتے ہیں لہٰذا ٹی وی پالیسی بنانے والوں کیلیئے یہ ضروری ہے کہ وہ معیاری اور نہایت عمدہ پرو گرام اس انداز میں دکھائیں کے بچے ان سے اچھا تاثر لیں۔

   ٹی وی اسکرین پراچھے اور برے ہر طرح کے کردار دکھائے جاتے ہیں چونکہ بچوں کے ذہن نہ پختہ ہوتے ہیں اور شعوری طور پر فوراً اثر قبول کرتے ہیںاورافسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ منفی اثرات زیادہ جلدی قبول کر تے ہیں ۔اکثر چینلز پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ کہیں بھی بچوں کیلیئے درس وتدریس ،ذہنی نشونما اورجدید ٹیکنالوجی پرمثبت پروگرام پیش کرنے کے بجائے موسیقی اوررقص کے پروگرام زیادہ دکھائے جا رہے ہیں اور وہ بھی اس حد تک غیر دلچسپ کہ بچے اپنا بیشتر وقت ایسے غیر ضروری پروگرامز،ڈرامے،فلمیں ،غیر اخلاقی کارٹونز اور واہیات رقص وموسیقی کے پروگرامز کو دیکھنے میں گزار دیتے ہیںجس کے اثرات ان کے ذہن اور ان کی شخصیت پر حاوی ہو جاتے ہیں۔مثال کے طور پر ماردھاڑ،ایکشن سے بھرپور پروگرام دیکھنے سے صبروتحمل کا فروغ،مناسب تفریح مہیا نہ ہونے کی صورت میں حیلہ جوئی اور فریب کاری کے طریقوں میں اضافہ،نگاہوں کی کمزوری،تعلیم سے غفلت،ورزش وجسمانی حرکات سے محرومی،اعصابی کشیدگی،کاہلی وغیرہ وغیرہ۔

   بچوں کی ذہنی نشونما اور تعلیم و تربیت کیلیئے نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں جس میںکھیل کود ،سیروتفریح اور میڈیا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔بچے اپنے اردگرد کے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں خاص طور پر ٹی وی پر دکھا ئے جانے والے کارٹونزان کی توجہ کا اہم مرکز ہوتے ہیں اور ان کارٹونز میں دکھائے جانے والی عادتیں اور حرکتیں وہ جلد اپنا لیتے ہیں۔ہر دور میں ہی کارٹونز بچوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ہیں جوکہ ان کے ذہنوں پر نقش کر جاتے ہیںمگر آج سے پہلے اس طرز کے کارٹونزبنائے جاتے تھے جوبچوں کی بہترین تربیت اور نشونما میںمدد کے حامل ہوتے تھے جیسے کے میکی ماﺅس، ریسکیو ڈی اے گو اور ڈورا جس میں بچوں کو اچھے اخلاق ،ہمدردی،مدد کرناجیسی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی اس کے برعکس آج کل ایسے کارٹونز بنائے جا رہے ہیں جو بچوں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں،جن میں ٹام اینڈ جیری ،بین ٹین،اوگی،چھوٹا بھیم اور ڈوریمون وغیرہ شامل ہیں۔

آج کل بچوں کے سب سے پسندیدہ کارٹون ڈوریمون ہیں مگر یہ کارٹون بچوں کی دماغی صلاحیت کو انتہائی کمزورکر رہے ہیں ،اس کارٹون میں دکھایا جاتا ہے کہ ایک بچہ نوبیتا ہمیشہ نااہل رہتا ہے ماں باپ سے جھوٹ بولتا ہے اور کچھ کرنے کے بجائے جادوئی چیزوں کے ذریعے اپنی زندگی کو آسان بنانا چاہتا ہے اور اپنی صلاحیتوںپر ہر وقت روتا رہتا ہے،اوگی کارٹون جس میں اس طرح کی زبان استعمال کی جا رہی ہے جو کسی بھی قوم کی اور تہذیب کی عکاسی نہیں کرتی اور بچوں کے زبان و بیان کو بگاڑنے میں آج کل سرفہرست ہے،ٹام اینڈ جیری اور بین ٹین میں مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ جیسی چیزیںبہت حد تک دکھائی جاتی ہیں جو بچوں کے اندر اشتعال پیدا کرنے کا بھی ایک سبب ہیں۔

   جہاں تک بات زبان و بیان کی ہے اگر ہم غور کریں تو یہ بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس وقت ہمارے ملک پاکستان میں جتنے بھی کارٹون چینلز ہیں سب ہی ہندی زبان میں ڈبڈ ہوتے ہیں، نکلوڈیا،پوگو،کارٹون نیٹورک یہ سب چینلز ہندی زبان میں ہیں یہ بھی زبان و بیان کی تبدیلی میں منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں ۔

ماہرین کہتے ہیں کہ بچوں کیلئیے پیش کیئے جانے والے کارٹونز بہت حساس اور اہم ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کی زیادہ تر توجہ اسی طرف ہوتی ہے اور اگر یہ ہی کارٹونز غیر معیاری ہوں گے تو ان پر تنقید اور نکتہ چینی بھی اس قدر ہی ہو گی۔بلخصوص والدین کو بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کارٹونز کے منفی اثرات کے پیش نظربچوں کے اندر غصہ،بدتمیزی،ضداور غیر اخلاقی جیسی عادتیں اجاگر ہو جاتی ہیں ۔بچے اپنے والدین سے وہ ہی چیزیں مانگنے اور خریدنے کی ضد اور بحث کرتے ہیںجن پر ان کے پسندیدہ کارٹون کریکٹر بنے ہوئے ہوتے ہیںپھر چاہے ان کے والدین وہ چیز خریدنے کی حیثیت رکھتے ہوں یا نہیں مگر بچے اس چیز کو حاصل کرنے کی ضد میں والدین سے کافی حد تک بد سلوکی کر بیٹھتے ہیں۔

اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو یہ مسئلہ سنگین صورتحال کرتا جا رہا ہے،پاکستان میں کوئی ایسا کارٹون چینل نہیں جو یہاں سے پروڈیوز ہو اور پاکستان کی ہی ثقافت کو بہترین طریقے سے بچوں کے
 سامنے پیش کرے۔ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں پڑوسی ممالک سے کارٹون چینلز کو سیٹلائٹ پر دکھانے کی اجازت لیتے ہیں۔یہ ظاہری بات ہے کہ ہر ممالک اپنی ہی ثقافت کو اجاگر کرے گا اور بچے تو ہوتے ہی کچے دماغ کے مالک ہیں تو یہ ضروری ہے کہ ان کو کم عمری میں ہی صحیح اور معیاری راستوں کی گامزن کیا جائے۔ہماری حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ ایسے چینلز تشکیل دیں جو ہماری ثقافت کی عکاسی کی مددگار بنیں کیونکہ یہ بچے ہی ہمارے ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ 
 دسمبر
2015


Labels: ,

Interview of Yousif Pardesi

مجھے پڑھانے سے پیار ہے اور یہ میرے خون میں شامل ہے ۔ پروفیسرمحمد یوسف پردیسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسرمحمد یوسف پردیسی سے انٹرویو
انٹرویو: اجالا منصور
  ٹعارف: پروفیسر محمد یوسف پردیسی انٹرنیشنل افیرز کے ڈائیریکٹر اور آرٹز فیکلٹی بلڈنگ کے ایڈمن ہونے کے ساتھ ساتھ پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے لیکچرر بھی ہیں ۔پروفیسر یوسف نے ۲۷۹۱ءمیں سندھ یونیورسٹی جامشورو سے آرٹس میں بیچلر کیا ،۲۷۹۱ءمیںیونیورسٹی آف سندھ سے ہی پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ سے ہی پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کیا، ۴۷۹۱ءمیں یونیورسٹی آف سندھ سے ماسٹرز کیا،۲۸۹۱ءمیں امریکہ کی یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے ماسٹرز آف سوشل سائنسز کیا،۷۸۹۱ءمیں اسی یونیورسٹی سے ہی ماسٹرز آف پبلک ایڈمنسٹریشن کیا،۱۹۹۱ءمیں امریکہ کی ورجنیا کامن ہیلتھ یونیورسٹی سے ڈاکٹوریل ڈگری پبلک ایڈمنسٹریشن کی بعد میں بیورو آف اسٹیگز میں بطور ایڈوائیزر ہیں۔

 س: اپنی زندگی کا وہ یادگار لمحہ بتائیے جس نے آپ پر گہرا اثر ڈالا ہو؟
ج: یہ ۲۸۹۱ءکی بات ہے جب میں پٹبرگز جو امریکہ کی پینسلوینیا اسٹیٹ میںہے میں اپنے ایک عزیز دوست کو ایئرپورٹ لینے جا رہا تھا جو کہ ابروٹ سے آرہا تھا،اس دن بہت تیز بارش ہو رہی تھی جو کے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اس بارش میں میں اپنی ڈرائیونگ پر کنٹرول نہیں رکھ سکا اور میری گاڑی جا کر ایک درخت سے ٹکرا گئی ،وہ لمحہ میری زندگی کا سب سے خوفناک لمحہ تھا مگر اللہ پاک کا مجھ پر بہت کرم ہے کہ اس مالک نے میری زندگی کو محفوظ رکھا۔

س : آپ کی زندگی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی؟
ج : ایجوکیشن میں ہونے کی ناطے میں نے اور پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن شیخ نے پبلک ایڈمیسٹریشن کی ایک عمارت قائم کی جس کا میں چیئر مین بنا اور جہاں میں نے ۵۱ سال گزارے ۔۹۸۹۱ءمیں میں نے یونیورسٹی آف سندھ کے پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں بیچلرز ڈگری پروگرام شروع کیااب جسکا سلسلہ پی ایچ ڈی لیول تک ہے،اور میں امید کرتا ہوں کہ میرے شاگرد اس ڈپارٹمنٹ کو کامیابی سے جاری رکھیں گے۔

س: کیا وجہ ہے کہ ریٹائیرمنٹ کے بعد بھی آپ کی تدریس سے دلچسپی ختم نہیں ہوئی ، آپ پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں پڑھارہے ہیں؟
ج :مجھے پڑھانے سے پیار ہے اور پڑھانا ہی میری اصل پہچان ہے،مجھے کافی یونیورسٹیز سے پڑھانے کی آفرز آئی ہیں مگر میں نے ان آفرز کو قبول نہیں کیا اور ان کے مقابلے میں سندھ یونیورسٹی میں ہی پڑھانے کو ترجیح دیا۔۰۰۰۲ءمیں مجھے سندھ یونیورسٹس کا کنٹرولر آف ایکزیمز بھی بنایا گیااور اس کے ساتھ ساتھ مجھے سندھ یونیورسٹی کے ٹراینسپورٹز کا انچارج بھی مقرر کیا گیااور اب میں اسٹیگز کے بیورو کا ایڈوائیزر ہوں۔

س : اپنے سماجی کاموں کے بارے میں کچھ بتائیے ؟
ج :میںاسٹیگزکی کمیونیٹی میںکام کرتا ہوں،جہاںہم لیکچرز، ڈیبیٹز، نعت کے مقابلے، اسائینمینٹز،پریزنٹیشنزوغیرہ منظم کرتے ہیں۔ہم اپنے ہر طالبعلم کو سکھاتے ہیں کہ قانون کو کیسے فالو کیا جائے۔ہر سال تقریباً ۰۰۲۱ کے قریب لوگوں کی وفات روڈ حادثات کی وجہ سے ہوتی ہے ،تو اس کے لیئے ہم روڈ سیفٹی پر لیکچرز منظم کرتے ہیں جس میں ہم احتیاط سے ڈرائیونگ کرنے اور اپنی زندگی کی حفاظت کرنے کے طریقے سکھاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہم کمیونیٹی کی ترقی اور بچوں کے شعور کے متعلق پروگرامز منظم کرنے کے ساتھ ساتھ قانونی بیداری پر بھی لیکچرز دیتے ہیں،جس کا مقصد طلبہ کی ذمہ داریوںپر توجہ مرکوز کرنا ہے۔

س :جب مایوسی آپ کی زندگی میں ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟
جواب:جب میں کوئی برا منظم طریقہ دیکھتا ہوں تو بہت مایوس ہوتا ہوں،جب میں دیکھتا ہوں لوگوں کو بنا کوئی توجہ دیئے قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تو میں بہت مایوس ہوجاتا ہوںیہ سب چیزیں دیکھ کر۔ امریکہ میں کبھی بھی اپنی کلاس میں دیر سے نہیں جاتے تھے وہ وقت کے پابند تھے ۔ہمارا ملک بھی ترقی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے اگر ہم وقت کی پابندی کریں اور قواعدوضوابط کے مطابق چلیں۔

س :معاشرے میں بنیادی اوزار کیا ہونے چاہیئے؟اور اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ج :میری رائے کے مطابق ہمارا معاشرہ آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف زیادہ آرہا ہے،پاکستان میں آج بھی نہ ہی لوگوں کے رویے درست ہیں نہ ہی طالبعلموں میں کوئی تمیز ہے۔

س :آرٹس فیکلٹی میں آپ کا کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا؟
ج :میں نے پتال سے اپنے کام کا آغاز کیا ،شروع میں میں کلرک تھا اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی میں نے اپنے ماسٹرز ڈگری پروگرام کو جاری رکھا۔مجھے تعلیم کی لیکچرر شپ ملی اور کراچی میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر سیکیوریٹی فورس کے طور پر بھی کام کیا۔وہاں میں پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ میں لیکچر بھی تھا۔

س :سرکاری قوانین میں کوئی بھی تبدیلی کرنے کے کیا امکانات ہو سکتے ہیں؟
ج :جی بلکل آپ نے سنا ہوگا”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“تو کوئی بھی قواعد یا کوئی بھی ضوابط جہ حکومت کی جانب سے بنتے ہیںان پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔وہ کسی بھی ملک پر حکمرانی کرنے کے لیئے اہم ہیں۔تبدیلی تب ہی لائی جا سکتی ہے جب ہم نفاذ لاتے ہیں اورامکانات بھی تب ہی کیے جا سکتے ہیں جب ہم نفاذ کریں۔

س :ڈائیریکٹر اور انچارج ہونے کے علاوہ کیا آپ کوئی بھی دوسرا کام کرنے کو تیار ہیں؟
ج :میں اینٹرنیشنل افئیرز کا ڈائیریکٹر ہوں اورآرٹز فیکلٹی بلڈنگ کا ایڈمنسٹریشن انچارج بھی ان سب کے علاوہ میں پبلک ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ میں ۴ کورسز بھی پڑھاتا ہوں اور پڑھانا ہی میرا اصل شعبہ ہے اور میری پہچان بھی۔پہلے میں پڑھانے پر توبہ دیتا ہوں باقی بعد میں کسی دوسرے کاموں پر”مجھے پڑھانے سے محبت ہے اور پڑھانا میرے خون میں شامل ہے“۔

س :ہماری نوجوان نسل کے لیئے کوئی پیغام؟
ج :میرا پورے معاشرے اور ہماری نوجوان نسل کو بس یہ ہی پیغام ہے کہ پورے خلوص اور ایمانداری کے ساتھ ہمیشہ کام کریں بغیر رشوت لیئے،آپ کا دل ہر آپ کی روح دونوں اندر سے صاف ہونے چاہیئے ا”آج کا کام کبھی کل پر مت ڈالنا“،کم بولیں اور خلوص سے کام ذیادہ کریں،اس بات میں کوئی شک
 نہیں کی جب کام پورے خلوص اور ایمانداری سے ہوگا تبھی ملک ترقی کرے گا۔
 دسمبر ۵۱۰۲ع
 (نوٹ: انٹریو میں کم سے کم بارہ سوالات رکھیں)

Labels: ,

Monday, December 7, 2015

Interview with dance Ustad Ghulam Hussain



شاھنواز خاصخیلی
ماسٽر  غلام حسين   جو انٽرويو
غلام حسين  عرف ماسٽر  غلام حسين سانگهڙ ضلعي جي ڳوٺ شير خان لغاري ۾ 12 جنوري 1962ع ۾ پيدا ٿيو  ، سندس پيدائش مذهبي گهراڻي ۾ ٿي، غلام حسين جي والد جو نالو جمعو ۽ سندن ذات خاصخيلي آهي، هن پرائمري تعليم ڳوٺ مان حاصل ڪئي، مئٽرڪ شهدادپور ۽ انٽر جي تعليم ڊگري ڪاليج شهدادپور مان ڪئي،  1995 ع سندس شادي  ٿي، کيس هڪ پٽ ۽ ٽي نياڻيون آهن، چار ڀينرن ۽ ڇهه ڀائرن ۾ چوٿين نمبر تي آهي، سندس وجهه شهرت ڪلاسڪيل ڊانس ۽ مشهور مور ڊانس آهي،  ماسٽر غلام حسين پاڪستان توڙي ڪيترن ئي ملڪن ۾ فن جو مظاهرو ڪري چڪو آهي،  ڇهين ڪلاس کان غلام حسين اسڪولن ۾  ٿيندڙ فنڪشن ۾ ڊانس ڪندو هو، اسڪولن ۾ ڇوڪري جي ڪردار ڪري ڊانس ڪرڻ تي کيس مائٽن طرفان ڪيترائي دفعا مارڪٽ به ڪئي وئي پر سندس ڊانس ڪرڻ جو جنون گهٽجڻ بدران وڌندو ويو، انٽر بعد غلام حسين حيدرآباد ۾ رهائش پذير ٿيو ڇو ته سندس ڀائرن جي ڊيوٽي اتي هوندي هئي،  حيدرآباد اچڻ بعد  ماسٽر غلام حسين باقائدگي سان ناچ سکڻ شروع ڪيو، اسلام آباد پاڙي ۾ سن رائيز ڪلب ۾ سندس استاد ابراهيم لچڪي ۽ مشهور ڊانسر ماسٽر صديق عرف بوبي کيس ڊانس جي تربيت ڏني، سن رائيز ڪلب ۾ کيس استاد ابراهيم لچڪي کيس ڌاڳو ٻڌي شاگرد ڪيو، ماسٽر غلام حسين پاڪستان سميت، ايران ، جرمني، دبئي، مسقط، ترڪي ۽ ٻين ڪيترن ئي ملڪن ۾ پنهنجي فن جو مظاهرو ڪري چڪو آهي، حيدرآباد جي راڻي باغ جي هڪ پروگرام ۾ سندس فن ڏسي پي ٽي وي جي اڳوڻي جرنل مئنجير مرحوم عبدالڪريم بلوچ کيس پي ٽي وي جي پروگرام پرک ۽ ٻين ۾ جڳهه ڏني، ان بعد ماسٽر غلام حسين ڪيترن ئي پروگرامن ۾ ڪم ڪري چڪو آهي،  لطيف ايوارڊ، ترڪي جي صدر جي ايوارڊ، قلندر لال شهباز ايوارڊ سميت سوين ايوارڊ فن مڃتا طور کيس مليا آهن، ماسٽر غلام   حسين جي شاگردن جو تعداد به هڪ سئو کان مٿي آهي،  جهرندڙ عمر جي باوجود غلام حسين جو نه جنون گهٽ ٿيو آهي نه  سندس  شوق شڪست کاڌي آهي، ڪوٽڙي جي ريلوي لائين  جي هڪ ڪمري وري ڪوارٽر نما گهر ۾ رهندڙ ماسٽر غلام حسين کان انٽرويو ڪرڻ لاءِ پهتس، ماسٽر پنهنجي ڳالهه ٻولهه ۾ تمام دلچسپ ڳالهيون ٻڌايون

سوال؛ ماسٽر ڊانس جو شوق ڪيئن ٿيو ۽ ڪڏهن ٿيو ؟  
جواب؛ جڏهن مان ڳوٺ جي پرائمري اسڪول ۾ پڙهندو هئس ته اسڪول ۾ ننڍا پروگرام ٿيندا هئا، جن ۾ آئون حصو وٺندو هئس، جڏهن منهنجي ڳوٺ ۾ ڪا شادي وغيره ٿيندي هئي ، اڳ ۾ شادين ۾ ناچو ايندا هئا،  پوءِ جڏهن ناچو نچندا هئا ته انهن جي پيرن کي مان غور سان ڏسندو هئس ته اهي ڪيئن ٿا نچن؟ ان جي آواز پياري لڳندي هئي، ان کان علاوه موسيقي سان تمام گهڻو لڳاءُ هو، جڏهن شهدادپور هائي اسڪول ۾ ڇهين جماعت داخلا ورتي ته اتي به وڏا پروگرام ٿيندا هئا،  اتي هڪ پروگرام ۾ مون ڇوڪري جو ڪردار ادا ڪيو، انهي پروگرام ۾ مون پرفارمنس سان ڪيو، اداڪاري سان گڏ ڊانس ڪيو، جڏهن اها خبر گهروارن کي پئي ته مون کي تمام گهڻي مارڪٽ ڪئي وئي، مار ياد آهي پر وقت نٿو ڀلجان، اندر جو جنون مارڪٽ سان نٿي نڪري سگهيو، ڳوٺ ۾ مامي جي ڍڳن جا پٽي واري گهنگرو چوري ڪري اهي پائي مان اڪيلو وڃي جهنگ ۾ رقص ڪندو هئس، اها 1971ع جي ڳالهه آهي جڏهن مان پرائمري پڙهندو هئس، امان چوندي هئي ته ڪاٺيون ڪري اچو، آئون امان کي چوندو هئس ته آئون ٿو وڃان، اصل ۾ مون کي ڪاٺين جو شوق نه پر جهنگ ۾ رقص ڪرڻ جو جنون هو، گهنگرو جهنگ ۾ لڪائي ڇڏيندو هئس، هڪ دفعو ڪنهن ڳوٺاڻي مون کي رقص ڪندي ڏسي ورتو، جنهن منهنجي گهر ٻڌايو، مامي کي جڏهن خبر پئي ته مامي پٽن سان مون کي ماريو، مارڪٽ باوجود جنون اهو ئي ساڳيو، مارڪٽ دوران امان بچائيند هئي ۽ وڏي ڀيڻ ٽاڪوڙ ڪندي هئي، وڏي ڀيڻ تمام گهڻو ڀائيندي هي.
    
سوال؛ باقائده فن جي سکيا ڪٿان ورتي؟ 
     جواب؛ شهدادپور ۾ جنهن گهر ۾ رهندو هئس اهو ڀيڻيويو جو گهر هو، ان گهر جي سامهون ريڊيو پاڪستان جو هڪ فنڪار استاد طفيل خان رهندو هو، اهو جڏهن ته رياض ڪندو هو آئون وڃي اتي ويهي رهندو هئس، ائون هن کي مامو ڪري سڏيندو هئس، استاد طفيل راڳ، سر ۽ تال ۾ منهنجو استاد رهيو، هڪ دفعي وري هڪ پروگرام ۾  ڊانس ڪيم ته گهروارن ڏاڍو ماريو، منهنجون رڙيون ٻڌي استاد طفيل گهر جو دروازو وڄايو، بابا ٻاهر نڪتو، استاد طفيل حاجي جمعي کي سمجهايو ته ڇوڪري کي مارڻ سان ڪجهه نه ورندو، وڌيڪ خراب ٿيندو، بابا چيو ته هن نالو  بدنام ڪيو آهي، استاد طفيل چيو ته ڇوڪرو ڀلو آهي، هن ۾ فن جو جنون آهي،  پوءِ بابا کي ڳالهه سمجهه ۾ اچي وئي،  جنهن بعد گهر جي ڀرسان بلوچن جي پاڙي ۾  شادي ۾ مشهور ڊانسر استاد ابراهيم لچڪ آيو،  هن جي ڊانس ڏسڻ دوران استاد ابراهيم جو پوئلڳ ٿي پيس، استاد طفيل خان منهنجي ٻانهن ابراهيم لچڪ حوالي ڪئي، هن مون کان واعدو ورتو ته تعليم پوري ڪندي مون هائوڪار ڪئي، جنهن بعد استاد ابراهيم لچڪ مون کي ڌاڳو ٻڌو، ست رپئي جي مٺائي وٺي آيس ۽ ٻن رپين جا گلاب جا گل وٺي آيس،  استاد طفيل منهنجي طرفان انهي وقت ويهه رپيا استاد ابراهيم لچڪ کي ويهه رپيا نذرانو ڏنو ۽ سندي طرفان اجرڪ پڻ ڏني، جنهن بعد آئون ڪوٽڙي مان حيدرآباد رائيز ڪلب تي ويندو هئس ۽ ڊانس سکندو هئس 

سوال؛ مور ڊانس ڪرڻ جو شوق ڪيئن ٿيو ۽ ان ۾ ڪيترويون ڏکيائون پيش آيون؟           جواب؛ ڀٽي صاحب جي دور حڪومت ۾ پي ٽي وي تي هڪ پروگرام هلندو پائل نالي سان جنهن ۾ ناهيد صديقي ڊانس  ڪندي هئي، ٻئي هڪ پروگرام  ۾  ايمي مين والي ڊانس ڪندي هئي، ناهيد صديقي مور جو ڊانس ڪندي هئي، جيڪو مونکي تمام گهڻو وڻندو هو، وقت گذرندو ويو ۽ ناچ سکندو رهيس نيٺ 1985ع ۾ استاد کي چيم ته استاد آئون پنهنجي سڃاڻپ الڳ ٺاهڻ چاهيان ٿو، جنهن سان ماڻهو هميشه ياد رکن، استاد کي ٻڌايم ته مور جي ڊانس ڪرڻ چاهيان ٿو استاد چيو ته اهو ڏکيو ڪم آهي، مور جا پر ڪٿان ايندا، اهو لباس ٺهندو ڪيئن، مون استاد کي چيو ته جنون آهي ته سڀ ڪجهه ٿي ويندو آهي، 1987ع ۾ پر گڏ ڪرڻ شروع ڪيا، لباس ٺاهڻ نه اچي، استاد مرحوم حميد چوڌري منهنجي استاد جو استاد ، انهي طريقو ٻڌايو، مون سئو پر ورتا، استاد چيو ته هزار پر کپن، پوءِ پروگرامن مان جيڪوڪمائيندو هئس پر وٺندو هئس، جيئن تيئن ڪري پنج ڇهه سئو پر ورتا، 1989ع ۾ استاد مور جو لباس ٺاهڻ سيکاريو، موچي سان گڏ ڪم شروع ڪيم، مور لباس ٺاهڻ کانپوءِ پهريون پروگرام 1990ع سنڌيالاجي سنڌ يونيورسٽي ۾ ڪيو، ان پروگرام بعد شهرت وڌندي وئي.                                                              
سوال؛ ٽي وي اسڪرين تي ڪنهن ۽ ڪڏهن متعارف ڪرايو؟ 
 جواب؛  1992 ع ۾ راڻي باغ حيدرآباد ۾ اوپن ٿيٽر پروگرام ٿيو، اتي ورائٽي شو ۾ پرفارم ڪيم، ان پروگرام ۾ پي ٽي وي جو جرنل مئينجر مرحوم عبدالڪريم بلوچ به آيو هو، ان منهنجي پرفارم ڏٺي ۽ ان کي ڏاڍي پسند آئي ۽ عبدالڪريم بلوچ مون وٽ ويو شاباش ڏني، اتي خواهش ظاهر ڪيم ته مون کي ٽي وي پروگرام ۾ جڳهه ڏني وڃي، جنهن تي عبدالڪريم بلوچ اتي بيٺل پروڊيوسر  حميد هاليپوٽو کي چيو ته هن کي عيد شو ۽ پرک پروگرام ۾ کڻو، ٽي وي اسڪرين تي آڻڻ ۾ عبدالڪريم بلوچ هو، هن مون کي پي ٽي وي تي متعارف ڪرايو، پي ٽي وي تي اچڻ بعد جڳ مشهور ٿي ويس، عبدالڪريم بلوچ ڏاڍو ڀائيندو هو. 
                            
سوال؛  شادي پسند ته ڪئي يا ماءُ پيءُ جي مرضي سان؟    
جواب؛ شادي ماءُ پيءُ جي مرضي سان ڪئي.  
                                   
سوال؛ زندگي جو ڪو اهڙو ڏک جيڪو وسري نه سگهيو هجي؟   
جواب؛ 2000 ع ۾ سنڌ ميوزم ۾ هڪ پروگرام ڪيم، پروگرام ۾ منهنجي انٽري جي اعلان ٿي ويو ۽ مان وڃڻ لڳس ته منهنجي شاگرد سڏ ڪيو استاد، استاد ضروري فون آهي، مون چيو ته منهنجي انٽري ٿي وئي آهي، شاگرد چيو ته استاد تنهنجي والده گذاري وئي آهي، منهنجا حوصلا خطا ٿي ويا پر مون برداشت ڪيو، مون شاگرد کي چيو ته فون کي بند ڪر، ان باوجود ۾ اسٽيج تي سخت تڪليف واري ڪيفيت ۾ پرفارم ڪيو، پر اها ڪيفيت مون ظاهر نه ڪئي، ڊانس ختم ڪري مون بيگ تيار ڪيو ۽ ڳوٺ وڃڻ لاءِ نڪتس،  پئسا به نه ورتم، گهر پهتس، سياري جي رات هئي،  رات جا ٻه ٿياهئا، سڄي رات ويهي گذاريم ، فجر جي وقت گاڏي بوڪ ڪرائي ڳوٺ پهتس ۽ امان جي آخري رسمن ۾ شريڪ ٿيس 
سوال؛ خراب ڳالهه ڪهڙي لڳندي آهي؟ 
جواب؛ ڪوڙ ۽ لالچي ماڻهو کان سخت نفرت آهي
                            ،
سوال؛ کائڻ ۾ ڇا پسند آهي؟
                             جواب؛ کائڻ ۾ جيڪي الله جي نعمت هجي سڀ پسند آهي پر شامي ڪباب ۽ کيرڻي گهڻي پسند آهي
                     .
سوال؛ سٺي ڳالهه ڪهڙي لڳندي آهي؟  
جواب؛ سچ تمام گهڻو پسند آهي.
                
سوال؛ پسنديده لباس؟
جواب؛ پينٽ شرٽ، جينيز  
         
سوال ؛ پسنديده سياسي شخصيت 
جواب؛ محترمه بينظير ڀٽو

سوال؛ پسنديده فلمي شخصيتون؟ 
جواب؛ پاڪستاني اداڪاره راني، اداڪاره زمرد، اداڪاره انجمن ، انڊيا ۾ وحيده رحمان، پدمني، وجنتي مالا، ريکا، ماڌوري، جيئا پراڌا، سري ديوي، هيما مالني                                                                                                  
سوال؛ڪو  آخري پيغام ڏيندو؟  
جواب؛ هڪ ڏينهن الله ڏي وڃڻو آهي، اهو اسان جو حقيقي مالڪ آ، پنج وقت اذان اچي ٿي، ان لاءِ نماز پڙهو، نماز ۾ ڇوٽڪارو آهي، الله جون ڪيتريون ئي نعمتون آهن، نماز نه ڇڏيو، نماز قائم ڪريو
Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Labels: ,

Historic Mukhi forest

 Shahnawaz Khaskheli
2k14/MMC/48 ( Final year)
Improver ( 1st year 2nd semester )
شاھنواز خاصخیلی
مکي ٻيلو
( فيچر )
سانگهڙ ضلعو حرن جي مزاحمتي ماڳ، سهڻي ميهار جي آخري آرامگاهن ۽ برهمڻ آباد جي قديم آثارن جي حوالي سان سڃاتو ويندو آهي، سانگهڙ ضلعي جي اتر ڏانهن ضلعو خيرپور ۽ نوابشاهه،ڏکڻ طرف حيدرآباد ۽ اوڀر ڏانهن ڀارت جو حدون لڳن ٿيون،هن ضلعي ۾ مکي ڍنڍ جي ڪناري تي هڪ ٻيلو آهي، جنهن کي مکي جو ٻيلو سڏجي ٿو، (عثمان ڏيپلائي جو سانگهڙ ناول به هن ٻيلي ۾ حرن جي  مزاحمتي هلچل ۽ ان مزاحمتي ڪردارن تي لکيل آهي)  مکي ٻيلو حرن  جي مزاحمتي هلچل جو هيڊڪوارٽر هو،  حر تحريڪ جي عسڪري ڪارروائين کي هتان هدايتون ۽ ڪنٽرول ڪيو  ويندو هو،  

حر تحريڪ جي باقائده سرواڻي بچو بادشاهه ڪئي ، جنهن سان 12 ڄڻا شامل هئا، جن کي حر يا پيرپاڳاري جا مريد ٻرهوٽيا يا مکي جا مور ڪري چوندا هئا، هنن پنهنجي تحريڪ جو مرڪز سانگهڙ ضلعي جي مکي ٻيلي جي مکي ڍنڍ کي بڻايو،  ان هنڌ جي ايراضي اٽڪل هڪ هزار چويهه ميل هئي، ان مکي ڍنڍ جي پاڻي اندر بي انداز ٻيلاٽيون ۽ ٻيٽاريون هيون، جن ۾ اهڙا ته گهاٽا ٻيلا هئا، جو ڪنهن به اڻ سونهين ماڻهو لاءِ بلڪل اڻ ڄاتل ۽ اجنبي هئا، ڄاڻو ماڻهو ئي انهن جي گهٽن گهيڙن، رستن ۽ پيچرن کي سڃاڻي سگهيو ٿي، اهو علائقو ايترو ته محفوظ هو جو دشمن اتي ڪنهن ڪنهن به ريت پهچي نه ٿي سگهيو،  ان ڪري حرن مکي ٻيلي کي تحريڪ جو مرڪز بڻايو،  مکي ٻيلي ۾ ڪاٺ، اڱر، کونئر ۽ ماکي جام ملندي هئي ۽ مال جي چرڻ لاءِ گاهه به جام ٿيندو هو،  

هن ٻيلي ۾ فطرت جي سونهن ڏسڻ وٽان آهي، تل جي اگهه ۽ وڻن جي گلن جي رس ماکي جي اهڙي ميزباني ڪئي جو خود ٻيلي تي نالو مکي ئي پئجي ويو، ماکي ج جهجي هئڻ سبب هن ٻيلي تي مکي نالو پيو، آزادي کان گهڻو اڳ مکي ٻيلي جون حدون جمڙائو هيڊ کان ناري جي پرئين ڀر اڇڙي ٿر جي ڀٽن تائين دنگ ڪيو ٿي،  هينئر به چوٽياري کان کپري ۽ هٿونگي کان هيٺ تائين ان ٻيلي جا نشان ملن ٿا، موجود وقت ۾ مکي ٻيلي جا ڪجهه حصا موجود آهي، جيئن کپري ويجهو کوڙي وارو ٻيلو اڄ به سوين ايڪڙن تي موجود آهي، کوڙي ٻيلي جي ماکي اڄ به مشهور آهي،  جمڙائو  هيڊ کان اورئين ڀر اڄ جتي پنجابين ۽ پٺاڻن جا چڪ آباد آهن،  اهي سڀ مکي ٻيلي اندر هئا،  ان پاسي کان ٻيلي جون حدون اڳتي وڌنديون شاهپور چاڪر جي اترئين ڳوٺن غلام محمد ڏاهري ۽ راهواري واري ايريگيشن بنگلي کان ٿينديون کڏڙو، ڀڙي ۽ وري گولائي ۾ سانگهڙ ۽ باکوڙو ڪئمپ ڏانهن ڦري ٿي آيون.آزادي کان اڳ هزارين ايڪڙن تي ٻڌل هن 

مکي ٻيلي ۾ ڪيئي قومون آباد هنيون جن ۾ سک، ڀٽ ، پلهه، ملاح، هنڱورا، مري، شر، ابوپوٽا، ڪارڙا، لغاري، وسا ڻ، بهڻ، مڱريا، شاهه، ميرجت، خاصخيلي، ڪراڙ، ميگهواڙ، اوڏ، راڄپر، انڙ ۽ ٻين ڪيترن ئي ذاتين جا ماڻهو هي باد هئا، مکي ٻيلي ۾ ڪنڊي، لئي، ڪرڙ ۽ کٻڙ  جا وڻ عام جام ٿيندا هئا، لئي ۽ ڪنڊي جو وڻ هتان جي مقامي ماڻهن جي ڪم جا وڻ هئا، مکي ۾ جڏهن ڍنڍون وجود ۾ نه آيون هيون تڏهن رڳو ٻيلو ئي ٻيلو هو،  ان ٻيلي جي اورئين ۽ پرئين ڀر هيٺاهين ۾ لئي ٻين وڻن کان وڌيڪ هئي، لئي هن ٻيلي ۾ ٽن قسمن جي ٿيندي هئي ۽ ٿيندي آهي،  هڪ آسري لوو، ٻي عام ڇاٽرو هڻندڙ کاري جي لئي ۽ ٽئين مٺي جي لاڪڙ يا مور،  لاڪڙ لئي ٿوري وڏي گندين ۽ گهرن جي پتر لاءِ استعمال ڪبي آهي، منها به انهن سان ٺاهبا هئا، 

هن ٻيلي ۾ لئي عام جام هئڻ ڪري هتي ماکي ۽ ڦاڙهي پنهنجو گهر ڪيو،  ماکي ۽ ڦاڙو ٻئي دريائي ٻيلي جون سوکڙيون آهن، جيڪي مکي وارن کي هن  علائقي جي حياتياتي رنگارنگي ڪري تحفي ۾ مليون،  مکي  ٻيلي  جي تل ۾ مٺو  گاهه جهجهي تعداد ۾ ٿئي، ان ڪري ڦاڙهو مکي ۾ ايئن وڌيو جيئن رڍون ۽ ٻڪريون،  ڦاڙهو به اهو گاهه کائي ٿو جيڪو ڳائو مال واپرائي ٿو،  مکي ٻيلي ۾ ڳاڙهڳنيو نالي گاهه به ٿئي،  ڦاڙهو ٻٻر جي ٽاري، ڪنڊي جا ڪچڙا گئونچ يا پن ۽ سڱر پڻ شوق سان کائيندو آهي، ڪڻڪ جڏهن زمين مان نڪري گاهه جي شڪل ۾ اچي ته ڦاڙهو ان کي شوق سان کائي، آزادي کان اڳ مکي ٻيلي ۾ فطرت جون اهي سڀ رنگينيون موجود هيون،
 ناري جي هن ماٿري بابت مشهور آهي ته اها هاڪڙي درياءَ جي تهذيب جو حصو
آهي،  اڳئي ناري جي ماٿري جي دل مکيءَ ۾ ڪنڊي، ٻٻر، لئي، بهڻ، ڪرڙ ۽ کٻڙ جا وڻ جام هئا، مکي ۾  درياءَ واري علائقي جي ڏاچين آندو هو، 

اميد علي شر جو واسطو جيلاني پيرن جي جماعت سان هو،  هن مطابق ته جڏهن هالا وارن پيرن ۽ ان جي مريدن جون ڏاچيون هتي اينديون هيون ته اهي هالا کان مکي تائين مختلف کائيندي اينديون هيون، پوءِ هتي اچي مکي ۾ چرنديون هيون،  مکي ٻيلي جي موني ۾ واڳون، ڦاڙها ۽ سوئر بي حساب هونداهئا، سڄي مکي کي گهرن جو ڪاٺ موني مان ويندو هو،  حر تحريڪ کان اڳ ناري جو اوريئون حصو هيرڻ ڍنڍ هو، جنهن کي بچاءُ بند ڏنل هو، ناري جو پريون حصو مکي ٻيلو ۽ ان جي اندر آباد زمينون هيون، جن کي ڍوري، رانٽي ڇنڊڻ ۽ آجي ڇنڊڻ وٽان پاڻي ملندو هو، انهن زماني ۾ بقار، سيري، جادوپور ۽ صدوري نالي ننڍيون ننڍيون ڍنڍون وهنديون هيون،  جڏهن ته ڦاڙهي جي جوءِ جو دنگ چوٽياريون تائين ڇيهه ڪندو هو، 

جڏهن حر تحريڪ زور ورتو ته 1942ع کان 1943ع جي وچ ڌاري انگريز فوج ناري جي پرئين پاسي مکي ٻيلي کي ڪڙو چاڙهي بمباري ڪئي، ان بمباري ۾ جادوپور، سيري ۽ صدوري ڳوٺن کي سخت نقصان رسيو، ڳوٺ سڙي رک ٿي ويا، ڪي ماڻهو مري ويا، ڪن کي لوڙهن م قيد ڪيو ويو ۽ ڪي دربدر ٿي ويا، مشهور  ڌاڙيل رحيم هنڱورو  جو ٽولو به هن علائقي ۾ سرگرم هو،  انگريز فوج ان جي تلاش ۾ سڄي ٻيلي تي بم وسايا، جڏهن بمباري کان بچيل ٿاڪن کي بچائڻ لاءِ رحيم هنڱوري ناري کا گهارو هڻي پاڻي سان ٻوڙي فوج جي اندر پهچڻ جا سڀ رستا بند ڪري ڇڏيا، گهارو لڳو ته ماڻهن بيٺل فصل ۽ ٻيو سمورو ٻيلو پاڻي هيٺ اچي ويو، حرن جي خوف ڪري ڪير گهارو ٻڌڻ ڪو نه آيو،  ان دوران ڪيتريون ئي نيون ڍنڍون وجود ۾ آيون،  حر تحريڪ تي ڪم ڪندڙ محققن مطابق بقار جو هڪ وڏو حصو گهاري لڳڻ کانپوءِ ٺهيو ۽ سائو نارو پاڻي هيٺ اچي ويو،  

پاڪستان ٺهڻ کانپوءِ سڄو زور پنجابي، پٺاڻ ۽ مهاجر آباد ڪرڻ تي ڏنو ويو، ٻيلا، جهنگ، جانور، پکي پکڻ ۽ ٻي حياتياتي رنگارنگي کي هٿ وٺي تباهه ڪيو ويو، ايتري قدر جو 53_1932ع جي وچ واري عرصي دوران مکي ٻيلي جي گڪ فاريسٽر کي اهو چوڻو پيو ته رحيم هنڱورو مکي جي جهنگلي جيوت ۽ وڻن لاءِ قدرت طرفان رحمت بڻيل هو،  حڪومتي ادارن جي اهڙي بيحسي اڄ به قائم آهي، 

 سڄي مکي زراعت  ۽ مڇي جي تلائن جي ورچڙهيل آهي،  جنهن ۾ سواءِ چند ذاتي رکن جي خدا جي ان ٻي مخلوق لاءِ ذرو به رحم  نه بچيو آهي،  ستر سالن کانپوءِ هاڻ جڏهن مکي کي ڏنل پرائي ٻار جهڙو تحفو “ چوٽياريون ڊيم” ( جنهن کي مکي جو اڊاپٽڊ چائلڊ به چوندا آهن ) ڀرجي وري سڪو آهي ته ان جي تري مان ان زماني واري ٻيلي جا آثار هڪ ڀيرو ٻيهر نڪري نروار ٿيا آهن، 

گذريل ڪجهه عرصي کان چوٽياريون وارو علائقو ڪاٺ جي چوري جو وڏو مرڪز بڻيل آهي،  ان ڪري ڊيم اندر آيل پراڻين ڍنڍن جي تري وارو ڪاٺ علائقي جي ڪاٺ مافيائن لاءِ سون بڻجي ويو آهي،  اصل ۾ مکي ٻيلو لئي جو وطن هو.چوٽياريون ڊيم ٺهڻ کانپوءِ مکي ٻيلي جي رهيل حالت به تباهه ٿي وئي ، هزارين ماڻهو لڏپلاڻ ڪري ويا، زمينون خريد ڪيون ويون، جهنگلي جيوت نالي ماتر وڃي بچيو آهي، 

 ان ڊيم جڪي سروي تي ڪم ڪندڙ ادارن سرميڪانلڊ، پاٽنرس، قومي انجنيئرنگ سروس، ايوسسيئيٽ ڪنسلٽنگ انجنيئر جي رپورٽ موجب  ڊيم ٺهڻ سان پيدواري زمين جو خاتمو، مال جي چراگاهن جو خاتمو، جهنگلي جيوت جي جوءِ جو خاتمو، جهنگلي جيوت جي چرپر، بند جي تعمير دوارن پاڻي جي ترسيل ۽ نظام ۾ رنڊڪ پوڻ، واهن ۾ مٿاهين پٽن جو پاڻي کڻي ايندڙ، نين جي ڇيڙڇاڙ،  ناري ڪئنال سان گڏوگڏ سم ۽ ڪلر جو وڌي وڃڻ، تيار ٿيل وڻ جي تباهي يا خاتمو، ڦاڙهي کي جوءِ نيڪالي اچڻ، پاڻي جي گدلاڻ، تعميراتي مٽي ۽ ڌوڙ جو اڏرڻ وغيره.ڊيم ٺاهڻ دوران ماڻهن سان جيڪي واعدا ڪيا ويا اهي پورا نه ڪيا ويا،

 اسان ڏٺو ته نه ته پاڻي وڌيو، نه ئي مهاڻن کي لائسنس مليا ۽ نه ئي کين پاڻي جو حق، هارين  کي نه مليون نه کين گهر ٺهي مليا، مالوندن سان وڏو مذاق ڪيو ويو، هن ڊيم جي ڪري هنن سڀڪجهه وڃايو، ڊيم ٺهڻ کانپوءَ نه ته ڊيم ڀرجي سگهيو، نه ئي ٽيوب ويل هلي سگهيا، گهڻا ٽيوب ويل ته سڙي رکي ٿي ويا يا چوري ٿي ويا، نارا جي ريماڊلنگ سان پاڻي جي بچت به نه ٿي، ڳري مشينري جي اچڻ ڪري جهنگلي جيوت خوف وچان ميداني علائقن جو رخ ڪيو،  ڊيم جي ڪري علائقو کلي ويو، وائلڊ لائيف وارن به ڪي جوڳا قدم نه کنيا،چراگاهه ختم ٿي ويا، فطرت جي حسين نظاري مکي ٻيلي جي سونهن اجڙي وئي، هڪ خوبصورت ٻيلي کي هٿ وٺي تباهه ڪيو ويو. پوري پاڪستان ۾ هن وقت ٻيلن جو صرف ٻه سيڪڙو رهيو آهي جيڪو به مستقبل ۾ ختم ٿي ويندو، 
                                                                                                                          

Shahnawaz Khaskheli
2k14/MMC/48 ( Final year)
Improver ( 1st year 2nd semester )

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Labels: ,

Rise and fall of Manganhars


Shahnawaz Khaskheli
2k14/MMC/48 ( Final year)
Improver ( 1st year 2nd semester )
 منڱڻهارن جو عروج ۽ زوال 
تحقيقاتي رپورٽ

( تحقيقاتي رپورٽ )
 سنڌي ثقافت جي سفيرن منڱڻهارن فقيرن جي فن کي جدت ڳڙڪائي وئي، روڊن تي ويهي ماڻهن کي متوجه ڪرڻ لڳا، ڪيترن ئي دهل، شهنائي ڇڏي ڏنا، ڪيترائي روڊن تي اچي ويا،  جدت جي وڌندڙ  اثرن سنڌ جي هن شاندار ثقافتي جزکي ڪاپاري ڌڪ هنيو، سرڪاري سرپرستي توڙي ماڻهن جو ثقافت کان پري ٿيڻ به زوال جو سبب بڻيل، ماضي ۾ سنڌ جي ننڍي وڏي شادي منڱڻهار فقيرن کانسواءِ اڌوري سمجهي ويندي هئي، ايڪو سائونڊ ۽ شادي هالن جي تيزي سان تعمير کانپوءِ ماڻهو منڱڻهارن فقيرن کي وسارڻ لڳا، اولاد ڄمڻ کان وٺي شادي تائين هر ننڍي وڏي خوشي ۾ منڱڻهار فقير ساز ڇيڙي ماڻهن کي رقص ڪرڻ تي مجبور ڪري ڇڏيندا هئا، دهل ۽ شهنائي جي جڳهه ايڪو سائونڊ ۽ غيرمعياري گانن سنڀالي ورتي،  اڄ به سنڌ جي ٻهراڙين وارن علائقن ۾ منڱڻهار فقيرن جو مان ۽ مرتبو برقرارآهي،

  تفصيل موجب سنڌ جي ثقافت جو اهم جز سمجهيا ويندڙ منڱڻهارن فقيرن جي فن کي جدت ڳڙڪائي وئي، ڪيترا ئي شهنائي ۽ دهل وڄائڻ ڇڏي ٻين ڌنڌن ۾ جنبي ويا،  ماضي ۾ سنڌ جي هر ڳوٺ توڙي شهر جي ننڍي وڏي شادي منڱڻهار فقيرن کان سواءِ اڌوري سمجهي ويندي هئي پر موجوده دور ۾ ايڪو سائونڊ ۽ شادي هالن جي تيزي سان تعمير سبب ماڻهو منڱڻهار فقيرن کي وسارڻ لڳا آهن، سنڌ جي ثقافت جو هي اهم جز  پنهنجي فن جي مڃتا نه ملڻ زوال پذيري جو شڪار ٿي ويو آهي، جڏهن ته ڪيترائي  منڱڻهار فقير پنهنجي اباڻي ڏنل ورثي کي ڇڏي ٻين ڌنڌن ۾ جنبي ويا آهن، سرڪاري سرپرستي نه هئڻ ۽ ماڻهن ۾ ثقافت بابت شعور گهٽ هئڻ سبب سنڌي ثقافتي جو هي جز سنڌ جي تقريبن شهرن مان ختم ٿي چڪو آهي،

ڪيترائي منڱڻهار فقير اڄ به پنهنجي فن ۾ ماهر سڃاتا ويندا آهن پر سرپرستي نه هئڻ ڪري اهي روڊن تي شهنائيون وڄائي ماڻهن کي متوجه ڪرڻ تي مجبور آهن،  ماضي ۾ سنڌ  جا ماڻهو اولاد ڄمڻ کان وٺي شادي تائين هر ننڍي وڏي خوشي ۾ منڱڻهار فقيرن کي لازمي گهرايو ويندو هو ۽ ان کانسواءِ تقريب نامڪمل سمجهي ويندي هئي، انهيءِ ۾ منڱڻهار فقير شهنائي تي ڌنون ۽ دهلن تي تالن سان اهڙو ساز ڇيڙيندا هئا جو ٻارن کان وٺي پوڙهن تائين سڀ رقص ڪرڻ تي مجبور ٿي ويندا هئا،  موجوده دور ۾ سنڌ ۾ ٿيندڙ شادين ۾ منڱڻهار فقيرن جي جڳهه ايڪو سائونڊن ۽  غيرمعياري گانن سنڀالي ورتي آهي، جڏهن ته اليڪشن وارن ڏينهن ۾  به سياسي پارٽين جي ريلين ۾ منڱڻهار فقيرن کي گهرايو ويندو هو پر موجوده وقت  سياسي پارٽين جي جلسن، جلوسن ۽ ريلين ۾ ايڪو سائونڊ ۽ ڀنگڙا ڊانس جڳهه سنڀالي ورتي آهي، سنڌ جو ثقافت جو هي اهم جز ماڻهن ۾ ثقافتي  شعور نه هجڻ سبب پڻ زوال پذير ٿي رهيو آهي،

اڄ به سنڌ جي ٻهراڙين وارن علائقن ۾ منڱڻهار فقيرن جو مان مرتبو برقرار آهي، منڱهار فقير پنهنجي فن جي زوال پذيري سبب هاڻ ٻين ڌنڌن کي ترجيح ڏين ٿا، سنڌ جي ثقافت جي هن شاندرن ٿنڀ جي زوال پذير ٿيڻ سان سنڌ پنهنجي شاندار ثقافتي پاسي کان نه صرف محروم ٿي ويندي پر اڌوري پڻ بڻجي ويندي
              
 دهلن ۽ شهنائين جا مخلتف قسم،  گزي محرم ۾، متو شادين ۽ عام پروگرامن ۾ ۽ بنارسي ڪو ڪو وڄائي، وچولي جو وجود ئي ختم،  ڊڍ محرم  ۾ ۽ خوشي ۾ ليوا، جهومر ۽ ٽلو جا تال وڄايا وڄن ٿا.  
 منڱڻهار فقيرن وٽ دهلن ۽ شهنائين جا مخلتف قسم آهن ۽ انهن مان مخلتف قسمن جا ساز ۽ تال مخلتف موقعن تي وڄايا ويندا آهن، گزي شهنائي محرم جي چاليهي تائي، متو شهنائي شادي مرادي ۽ خوشين جي ٻين موقعن تي ۽ بنارسي شهنائي ڪير ڪير وڄائيندو آهي، جڏهن ته ڪجهه وقت وچولي شهنائي پڻ آئي پر جلد وجود وڃائي ويٺي، ان کان علاوه دهلن جا مخلتف قسم آهن ۽ تال آهن، ڊڍ محرم ۾ ۽ خوشي ۾ ليوا، جهومر ۽ ٽلو جا تال وڄايا وڃن ٿا. جڏهن ته وچولي شهنائي ۽ گزي ۾ ڪو خاص فرق ناهي،  

 محرم ۾ وڄائي ويندڙ گزي شهنائي سنڌ ۾ صرف حيدرآباد ۽ ڪوٽڙي ۾ موجود  
       محرم ۾ وڄائي ويندڙ گزي شهنائي هن وقت سنڌ ۾ صرف حيدرآباد  ڪوٽڙي ۾ موجود، باقي شهرن ان وجود ناهي رهيو.                                                                                                                                                                                                                           
 شهنائي جا مخلتف قسم مخصوص علائقن جا ڪاريگر ٺاهيندڙ، بنارسي شهنائي ڀارت جي شهر بنارس، متو سيالڪوٽ ۽ ملتان، جڏهن ته گزي سنڌ ۾ ٺهي ٿي.
 شهنائي جا مخلتف قسم مخلتف شهرن ۾ ٺهن ٿا ۽ ان کانسواءِ ڪٿي نٿا ٺهن، محرم ۾ وڄائي ويندڙ گزي سنڌ ۾، متو سيالڪوٽ ۽ ملتان ۾، جڏهن ته بنارسي شهنائي ڀارت جي شهر بنارس ۾ ٺهي ٿي.
                                                                                                                                            
 بنارسي شهنائي ۾  گهٽ آواز، متي ۾ ٿورو وڌيڪ ۽ گزي ۾ سنهو ٿئي ٿو.  
    بنارسي شهنائي ۾ گهٽ آواز، سنڌ ۾ وڄائي ويندڙ متي ۾ ٿورو وڌيڪ آواز  ۽  محرم  وڄائي ويندڙ گزي جو سنهو آواز ٿئي ٿو.
روڊن تي دهل ۽ شهنائي رکي ويٺلن کي منڱڻهار تسليم نٿا ڪيون، اهي نقل آهن، ماڻهن کي گوڙ کپي جيڪا روڊن تي  ويٺل انهن کي مهيا ڪري ڏين ٿا، حيدرآباد جا منڱڻهار فقير 
  حيدرآباد جي منڱڻهار فقيرن علي ، اويس، خان محمد ، استاد گلو، سوڍي رحيم بخش، علي مراد ۽ ٻين چيو ته روڊن تي دهل ۽ شهنائي کڻي ويٺلن کي منڱڻهار تسليم نٿا ڪيون اهي نقل آهن، اڄ ڪلهه نقل تمام گهڻو ٿي ويو آهي، ماڻهن کي پڻ گوڙ ۽ شور کپي جيڪو  روڊ تي ويٺل انهن کي مهيا ڪري ڏين ٿا. روڊن ويهڻ اسان جي اصولن خلاف آهي.
 ڪوٽڙي جو استاد عبدالله منڱڻهار پوري پاڪستان ۾ واحد بنارسي شهنائي وڄائيندڙ، عابده پروين کان وٺي ڪيترن ئي ناليوارن فنڪارن سان ڳائي چڪو، شاهه لطيف ايوارڊ، شهباز ايوارڊ کان وٺي ڪيترائي ايوارڊ ماڻ چڪو. 
ڪوٽڙي جو استاد عبدالله منڱڻهار پوري پاڪستان ۾ واحد بنارسي شهنائي وڄائيندڙ آهي، ان کان پهريان استاد رنگي خان لاهور وارو بنارسي شهنائي وڄائيندو هو، استاد عبدالله عابده پروين، استاد فتح علي خان، حميره چنا، جلال چانڊيو سميت ڪيترن ئي ناليوارن فنڪارن سان شهنائي وڄائي چڪو، ان کان علاوه استاد عبدالله شاهه لطيف ايوارڊ، شهباز ايوارڊ سميت ڪيترائي ايوارڊ ماڻيا، استاد عبدالله ڪوڪ اسٽوڊيو ۾ پڻ پرفارم ڪري چڪو  
                                                                                                                             

حيدرآباد جي روڊن تي ويٺل دهل شهنائي وارن پڻ منڱڻهارن فقيرن جي فن کي نقصان پهچايو، روڊن تي ويٺل اڪثر  پنجاب سان تعلق رکندڙ،
 حيدرآباد جي مختلف روڊن، آٽو ڀان روڊ، لطيف آباد روڊ، ٿڌي سڙڪ روڊ، حسين آباد روڊ ۽ گدو چوڪ سميت مخلتف علائقن ۾ روڊن ڀرسان ويٺل دهل ۽ شهنائي وارن پڻ منڱڻهارن فقيرن جي فن کي نقصان پهچايو آهي، انهن روڊن تي ويٺلن مان اڪثر جو تعلق پنجاب سان آهي ۽ تمام گهٽ پئسن ۾ تقريب ۾ شرڪت ڪندا آهن،  انهن وٽ موجود دهل ۽ شهنائيون پڻ سنڌ جي منڱڻهارن فقيرن کان مختلف آهن ۽ اڪثر هو دهل پنجابي طرز جي ڀنگڙي وانگر وڄائين ٿا  
 ماضي ۾ اولاد جي ڄمڻ کان وٺي عقيقي تائين ۽ شادي جا ڏينهن ٻڌڻ کان شادي تائين منڱڻهارن فقيرن کي بوڪ ڪرايو ويندو هو، ڪنواريتن ڏانهن ويندڙ ڄڃ منڱڻهارن فقيرن کانسواءِ نامڪمل هوندي هئي 
ماضي ۾ سنڌ ۾ اولاد جي ڄمڻ کان وٺي عقيقي تائين ۽ شادي جا ڏينهن ٻڌڻ کان نڪاح تائين منڱڻهارن فقيرن جي ٽولي کي بوڪ ڪرايو ويندو هو ، ان کانسواءَ ڪنواريتن ڏانهن ويندڙ ڄڃ منڱڻهار فقيرن کانسواءِ اڌوري سمجهي ويندي هئي، جڏهن ته نڪاح جي واري ڏينهن فجر مهل گهوٽ کي منڱڻهارن فقيرن جي پروٽوڪول سان شامياني ۾ آندو ويندو هو، جنهن کي ڀسرين جي رسم پڻ چئجي ٿو.
 تعليم يافته ۽ نوڪرين سان وابسته هئڻ باوجود ڪيترن ئي منڱڻهار فقيرن پنهنجي فن کي نه ڇڏيو، اولاد کي تعليم ڏيارڻ سان گڏ فن جي تربيت به ڏيندا آهن،
                                                                                   حيدرآباد جا ڪيترائي تعليم يافته ۽ نوڪرين سان وابسته منڱڻهار فقيرن پنهنجي فن کي نه ڇڏيو، اولاد کي تعليم سان گڏ فن جي تربيت پڻ ڏيڻ لڳا، حيدرآباد جا منڱڻهار فقير پرائمري استاد ظهير منڱڻهار، ڪلارڪ حبيب منڱڻهار ۽ ٻين چيو ته هن دور ۾ تعليم کانسواءِ جياپو ناهي، اسان پنهنجي ڪميونٽي کي تعليم ڏانهن  ڏيان ڏيڻ لاءِ چوندا آهيون ۽ پنهنجي اولاد جي تعليم ڏا نهن خاص ڌيان ڏيندا آهيون ۽ ان کان علاوه پنهنجي اولاد  کي فن جي پڻ تربيت ڏيندا آهيون ، اڄ ڪلهه جي دور ۾ فن تي گذارڻ مشڪل آهي ان لاءِ فن صرف اسان ورثي طور سنڀالي رکون پيا. 


Shahnawaz Khaskheli

Labels: ,

Sanghar rich in resources poor in infrastructure


Shahnawaz Khaskheli
2k14/MMC/48 ( Final year)
Improver ( 1st year 2nd semester )
قدرتي وسيلن سان مالا مال کنڊر بڻيل سانگهڙ ضلعو

تحقيقاتي رپورٽ

قدرتي وسيلن سان مالا مال سانگهڙ ضلعو کنڊر بڻجي ويو، ضلعو موئن جي دڙي جو ڏيک ڏيڻ لڳو،  20 سيڪڙو کان مٿي گئس مهيا ڪندڙ ۽ تيل جي ذخيرن سان مالامال ضلعي جا 75 سيڪڙو ماڻهو انتهائي غربت واري زندگي گذارڻ لڳا، تيل ڳوليندڙ 50 کان مٿي ملڪي ۽ غير ملڪي ڪمپنين ۾ اڪثر ڌاريا ڀرتي ٿيل، مقامي ماڻهن کي صرف ليبر طور ڀرتي ڪيو وڃي ٿو، ضلعي جي نوجوانن جا ڏنل ڪاغذ ڊسٽ بين حوالي، ضلعي ڏانهن ايندڙ ويندڙ هر روڊ ٽٽل، ڊسٽرڪٽ هيڊڪوارٽر اسپتال دل جي وارڊ، گڙدن جي وارڊ ۽ ٻين وارڊن کان وانجهيل، مقامي سياسي اڳواڻن جي ماهانه منٿلي مقرر ٿيل، ضلعي جي چونڊيل نمائنده جون ڪيتريون ئي جعلي ڀرتيون ٿيل. سپريم ڪورٽ ۾ ڪيس هلندڙ  

                                                                                                             سنڌ ۾ تيل ۽ گئس جي ذخيرن سان مالامال سنڌ جي امير ضلعي سانگهڙ جا  75 سيڪڙو  ماڻهو انتهائي غربت جي زندگي گزاري رهيا آهن، ضلعي ۾ ترقياتي ڪم نه ٿيڻ ڪري ضلعو موئن جو دڙو جو ڏيک ڏيڻ لڳو آهي، ضلعي ڏانهن ايندڙ ويندڙ هر روڊ ميرپورخاص_سانگهڙ روڊ، نوابشاهه _سانگهڙ روڊ، شهدادپور_سانگهڙ روڊ، ۽ ٽنڊآدم_ سانگهڙ روڊ سميت جو ضلعي جا سڀئي ننڍا وڏا 
روڊ توڙي لنڪ روڊ تباهه بڻجي ويا آهن جنهن سبب حادثا معمول بڻجي ويا آهن ، 

هڪ رپورٽ موجب سانگهڙ ضلعي اندر گذريل ٽن سالن ۾  ٻه سئو کان وڌيڪ ماڻهو روڊ حادثن جو شڪار ٿيا جن مان 50  کان مٿي فوري طبي سهولتون نه ملڻ ڪري فوت ٿي ويا، ضلعي جي 75 سيڪڙو کان مٿي آبادي انتهائي غربت واري زندگي گذاري رهي آهي، جڏهن ته  ضلعي اندر تيل ۽ گئس جا ذخيرا ڳوليندڙ 50 کان مٿي ملڪي توڙي غير ملڪي ڪمپنين ۾ وڏي تعداد ۾ ڌاريا ڀرتي ڪري مقامي ماڻهن کي نظرانداز ڪيو ويو آهي. 

 مقامي ماڻهن کي صرف ليبر طور ڀرتي ڪيو وڃي ٿو، ضلعي جي ٻن مک گئس پلانٽن ٻوٻي آئل اينڊ گئس پلانٽ ۽ رواتياڻي آئل اينڊ گئس پلانٽ ۾ پيش امام به ٻين صوبن جا ڀرتي ٿيل آهن،  جڏهن مقامي نوجوان طرفان ڏنل ڪاغذن کي ڊسٽ بن ۾ اڇلايو ويندو آهي، ان کان علاوه انهن ڪمپنيون ضلعي ۾ ترقياتي ڪم به نٿيون ڪرائين، ضلعي جي ڊسٽرڪٽ هيڊڪوارٽر اسپتال  ۾ دل ۽ گڙدن جو وارڊ ناهي جنهن سبب ايمرجنسي ۾ ايندڙ مريض ٻين اسپتالن ڏانهن ريفر  ٿيڻ کان پهريان ئي فوت ٿي وڃن ٿا، جڏهن ته ڪمپنين معاهدي تحت ضلعي اندر نه ڪو ترقياتي ڪم ڪرايو آهي نه ئي تعليم ۽ صحت  جي بهتري لاءِ ڪي ڪوششون ورتيون آهن،

 ضلعي جي چونڊيل نمائنده، مقامي وڏيرن ۽ ڪمپنين جي ڳٺ جوڙ سبب ضلعي جي حالت ڏينهون ڏينهن تباهه ٿيندي پئي وڃي، ضلعي جي چونڊيل نمائنده جون انهن ڪمپنين ۾ ڪيتريون ئي جعلي ڀرتيون ٿيل آهن جن جي ماهانه رقم باقائدگي سان انهن جي اڪائونٽ ۾ منتقل ٿيندي رهي ٿي، جڏهن ته مقامي وڏيرن جون پڻ منٿليون مقرر ٿيل آهن جيڪي ڪمپنيون انهن کي ادا ڪنديون آهن، ٻئي طرف سانگهڙ بار جي عهديدران پاران ڪمپنين خلاف سپريم ڪورٽ ۾ پٽيشن جي داخل ڪئي وئي هئي جن  جي لاڳيتو ٻڌڻين بعد سپريم ڪورٽ اهو فيصلو ڏنو هو ته ڪمپنيون معاهدي موجب ضلعي ۾ ڪم ڪري رپورٽ پيش ڪن، سانگهڙ ضلعي جي اهڙي ابتر صورتحال تي سپريم ڪورٽ انتهائي سخت ريمارڪس ڏنا هئا 
   اي پي ڪمپنيون ڪيتري ئي عرصي تائين پيٽروليم ڪنسيشن ايگريمنٽ جي ڀڃڪڙي ڪنديون رهيون، معاهدي تحت کين ضلعي اندر مقامي ماڻهن کي روزگار ڏيڻ، ماحولياتي آلودگي روڪڻ سميت طئي شده رقم اسپتالن، اسڪولن ۽ روڊن رستن جي مرمت تي خرچ ڪرڻي هئي،     

 تيل ڳوليندڙ ڪمپنيون جن کي اي پي چئجي ٿو اهي ڪيتري ئي عرصي تائين پيٽروليم ڪنسيشن ايگريمنٽ جي ڀڇڪڙي ڪنديون رهيون،  تيل ڳوليندڙ  ۽ تيل پيدا ڪرڻ واري ڪمپنين کي حڪومت سان  طئي ٿيل معاهدي ( پي سي اي ) تحت ڪمپنين کي تيل ۽ گئس وارن علائقن ۾ مقامي ماڻهن کي روزگار ڏيڻ، ماحولياتي آلودگي روڪڻ ، گئس جون سهولتون مهيا ڪرڻ سميت طئي شده رقم اسڪولن ۽ اسپتالن جي بهتري سميت روڊن ۽ رستن جي تعمير تي خرچ ڪرڻي هئي پر ڪمپنيون ڪيتري ئي عرصي تائين انهي معاهدي ڪمپنين جي ڀڇڪڙي ڪنديون رهيون 

 چيف جسٽس جي ٽنڊوآدم بار ڪائونسل آمد وقت بار جي صدر عبدالحڪيم کوسو خطاب ۾ ڪمپنين جي ڏاڍ کان چيف جسٽس کي آگاهه ڪيو، جنهن خطاب جي نقل ڪاپي چيف جسٽس سپريم ڪورٽ جي انساني حقن واري شعبي کي موڪلي ۽ پوءِ  ٻڌڻيون شروع ٿيون،

سپريم ڪورٽ ۾ سانگهڙ جي بدحالي ۽ ڪمپنين پاران معاهدي تي عمل ڪرڻ واري ڪيس جي شروعات 10 آڪٽوبر 2013 کان ٿي، ٽنڊوآدم بار ڪائونسل جي حلف برادري تقريب ۾ چيف جسٽس پڻ آيو هو، حلف برداري تقريب کي خطاب ڪندي بار ڪائونسل جي صدر عبدالحڪيم کوسو ضلعي جي حالت ۽ ڪمپنين پاران ٿيندڙ زيادتين کان چيف جسٽس کي آگاهه ڪيو، جنهن بعد چيف جسٽس ان خطاب جي ڪاپي وڌيڪ ڪارروائي لاءِ سپريم ڪورٽ جي انساني حقن واري شعبي کي موڪلي جنهن تحت ڪيس نمبر 13371 داخل ٿيو ۽ ڪمپنين کان وضاحتون طلب ڪيون ويون ، جنهن تي او جي ڊي سي ايل ۽ ٻين ڪمپنين وضاحتون ڏنيون پر اهي تسلي جوڳيون قرار نه ڏنيون ويون، جنهن بعد ڪيس جي وڌيڪ ڪارروائي آرٽيڪل (3) 184 تحت ڪرڻ جي هدايت ڪئي وئي، جنهن کانپوءِ ڪيس جي باقائده ٻڌڻيون شروع ڪيون ويون، ڪجهه ٻڌڻيون اسلام آباد ۾ ، 19 سيپٽمبر 2013 ۾ ڪراچي سپريم ڪورٽ ۾ ۽ آخري ٻڌڻي 28 آڪٽوبر 2013 تي ڪراچي ۾ جسٽس جواد ايس خواجه، جسٽس خلجي عارف حسين ۽ جسٽس گلزار  تي ٻل ٽي رڪني بئنچ ڪئي ۽ فيصلو محفوظ ڪيو، فيصلو جسٽس جواد ايس خواجه لکيو   

 آئين جي آرٽيڪل 19 اي تحت بنيادي ڄاڻ تائين رسائي، اي پي ڪمپنين پاران فلاحي فنڊ جي گڏڻ ڪر ڻ، نگراني ۽ انهن جو مفيد استعمال يقيني بڻايو وڃي، هر ڇهن  مهينن بعد کليل ڪچهريون منعقد ڪيون وڃن. سپريم ڪورٽ جو فيصلو 
                                                                                             
 سپريم ڪورٽ سانگهڙ گئس اينڊ آئل ڪمپنين جي ڪيس جو فيصلو ڏيندي چيو هو  ته آئين جي آرٽيڪل 19 اي تحت معلومات تائين پهچ جي بنيادي حق جي طريقڪار مطابق اي اينڊ پي ڪمپنينز ذريعي گڏ ٿيندڙ فلاحي ۽ سماجي فنڊن جي نگراني ۽ انهن جي مفيد استعمال کي يقيني بڻايو وڃي، مقامي ضلعي حڪومت کي انهن ۾ ضرور شروع شامل ڪيو وڃي، خصوصي طور هر ڇهن مهينن ۾ کليل ڪچهريون ڪرايون وڃن ۽ عوام کي ان ۾ شامل ٿيڻ لاءِ اخبارن ۾ اشتهارن ذريعي دعوت ڏني وڃي، ڊائريڪٽر پي اي کي هدايت ڏني وئي ته حاصل ٿيندڙ رقمن جي جامع رپورٽ ٺاهي وڃي،
 ضلعي جي ترقي لاءِ جوڙيل پروڊڪشن ڪاميٽي به سياسي اختلافن جي ور چڙهيل، هر چونڊيل نمائنده ڪمپنين پاران ڏنل ترقياتي فنڊ پنهنجي علائقي ۾ استعمال ڪرڻ جي ڪوشش ۾ رڌل 
      سپريم ڪورٽ جي فيصلي بعد ڪمپنين جي ڏنل فنڊن تي ترقياتي ڪم ڪرڻ ڪرائڻ لاءِ ڊسٽرڪٽ پروڊڪشن ڪاميٽي ٺاهي وئي، جنهن جو ڪنوينر ڊپٽي ڪمشنر ۽ چيئرمين پ پ پ ايم پي اي فراز ڏيرو کي ٺاهيو ويو، ڪاميٽي ۾  فنڪشنل ليگ  ۽ پيپلزپارٽي جا ٽي ٽي ايم،پي،ايز رکيا ويا، پر اها ڪاميٽي به سياسي اختلافن جي ور چڙهي وئي ۽ هر چونڊيل نمائنده ترقياتي فنڊ پنهنجن علائقن ۾ استعمال ڪرڻ جو خواهشمند آهي جنهن ڪري فنڊن جي صحيح استعمال تي پڻ خدشا موجود آهن.                                             
  ويهه لک آبادي واري ضلعي جي اسي سڪيڙو آبادي صاف پاڻي کان محروم، 68 يوسيز مان صرف 20 يوسيز ۾ فلٽر پلانٽ لڳل، اڌ کان وڌيڪ فلٽر پلانٽ ناڪاره بڻيل، 
  ويهه لک کان مٿي آبادي واري ضلعي سانگهڙ  جي اسي سيڪڙو آبادي صاف پاڻي کان محروم، اسي سيڪڙو آبادي واٽر سپلاءِ جو گندو پاڻي پيئڻ تي مجبور، واٽر سپلاءِ به ويهه کان پنجهويه سال پراڻا، جڏهن ته ضلعي جي 68 يوسيز مان صرف 20 يوسيز ۾ فلٽر پلانٽ لڳل آهن جن مان اڌ کان وڌيڪ ناڪاره بڻيل آهن  

 ضلعي جا چار سئو کان مٿي پرائمري اسڪول بند، 11 هائير سڪينڊري اسڪولن مان 8  جي ايس،اين ،اي منظور نه ٿي، عمارتون موجود،اسٽاف اڻلڀ، ويهه لک آبادي لاءِ چار تعلقي اسپتال ۽ ڇهه رورل هيلٿ سينٽر موجود، اڪثر اسپتالن م ايڪسري جي سهولت ناهي. 
  سانگهڙ ضلعي ۾ چا سئو کان مٿي پرائمري ۽ مڊل اسڪول بند ٿيل آهن، جن مان ڪجهه وڏيرن جون اوطاقون ۽ مال جا واڙا بڻيل آهن، 11 هائير سيڪنڊري گرلز اينڊ بوائز اسڪولن مان 8 اسڪولن جي ايس  اين اي سالن کان منظور نه ٿي، ڪروڙن جي لاڳت سان ٺهيل عمارتون اسٽاف نه هئڻ ڪري زبون حال بڻجي ويون، جڏهن ته  هائير سڪينڊري جا استاد مقرر نه ٿيڻ ڪري ضلعي جي ڏهه هزارن کان مٿي شاگردن جي تعليم  ڪيترن ئي سالن کان داءِ تي لڳل آهي، مٿئين ڪلاس جا ٻار پرائيويٽ ٽيوشن سينٽرن تي داخلا وٺي اڳتي نڪري وڃن ٿا جڏهن ستر سيڪڙو کان مٿي غريب شاگرد انٽر بعد گهر ويهي رهن ٿا

 ضلعي جي ويهه لک آبادي کي صحت جون سهولتون ڏيڻ لاءِ صرف چار تعلقي اسپتالون ۽ ڇهه رورل هيلٿ سينٽر موجود، ضلعي جيون ڪيتريون ئي ڊسپنسريون بند، اڪثر اسپتالن ۾ ته ايڪسري جي سهولت به ناهي، بجيٽ جي کوٽ ڄاڻائي مريضن کي دوائون ٻاهران وٺن جي هدايت ڪئي وڃي ٿي، ضلعي جي مک اسپتال ڊسٽرڪٽ هيڊڪوارٽر اسپتال سانگهڙ  ۾ ماڻهن وڃڻ کان لنوائيندا آهن، هن مک اسپتال ۾ دل جي مريض کي فوري طور هڻڻ واري انجيڪشن به موجود ناهي 
 جتي تيل ۽ گئس جا ذخيرا ظاهر ٿيا اتي جي آبادي غربت کان هيٺ واري لڪير ۾ زندگي گهاريندڙ  
                                                                                                                  سانگهڙ ضلعي جي جن علائقن ۾ وڌيڪ تيل ۽ گئس جا ذخيرا مليا اتي جي آبادي غربت کان هيٺ زندگي گهاريندڙ آهي، رپورٽ موجب تيل ۽ گئس جي ذخيرن وارن علائقن  ۾ سڀ کان وڌيڪ غربت  هيٺ  تعلقن ۾ پهرئين نمبر تي تعلقو سنجهورو، ٻئين نمبر تي سانگهڙ، ٽئين نمبر تي شهدادپور ۽ ٽنڊوآدم آهن 

 ضلعي جي سول سوسائٽي جا حال به هيڻا 

   سانگهڙ ضلعي جي سول سوسائٽي جا حال به هيڻا آهن، اها ضلعي جي ترقي، مقامي ماڻهن کي ڪمپنين ۾ روزگار ڏيڻ توڙي شعوري سجاڳي لاءِ موثر ڪردار ادا نه ڪري سگهي، غربت ۽ تعليم جي گهٽتائي سبب ڪا به موثر تحريڪ ضلعي اندر پنهنجا پير نه کوڙي سگهي آهي، سپريم ڪورٽ به سانگهڙ ضلعي جي ڪيس دوران ريمارڪس ڏنا هئا ته اسان ته حڪم ڏيون ٿا پر سول سوسائٽي کي به اڳتي اچڻ گهرجي ، ڪجهه عرصو پهريان شهرين، سياسي اڳواڻن ۽ ساڃاهه وندن تي مشتمل سول سوسائٽي تحريڪ هلائي هئي ان هڙتالون ۽ احتجاج به ڪيا هئا پر اها تحريڪ موثر ثابت نه سگهي، ان جو وڏو سبب ضلعي اندر  پيري مرشدي واري سياست آهي 
             
 ضلعو سانگهڙ ٽن قومي ۽ ڇهن صوبائي تڪن تي مشتمل آهي، گذريل ويهن سالن کان ڪنهن به چونڊيل نمائندي گئس اينڊ آئل ڪمپنين خلاف اسيمبلي جي فلور تي ڪو به آواز ناهي اٿاريو، ضلعي جو سينيٽر به خاموش  بڻيل 
                                 
   مشرف جي دور حڪومت ۾ هن ضلعي تي فنڪشنل ليگ جي حڪمراني هئي پر انهن به گئس اينڊ آئل ڪمپنين خلاف ڪو به آواز نه اٿاريو جنهن سبب انهن جو گئس اينڊ آئل ڪمپنينز جو ڳٺ جوڙ هو،  ضلعي سانگهڙ ۾ ٽي قومي ۽ ڇهه صوبائي تڪ آهن، موجوده وقت ۾ ضلعي مان هڪ سينيٽر، ٻن قومي ۽ ٽن صوبائي تڪن تي پيپلزپارٽي جا چونڊيل نمائنده آهن جڏهن ته هڪ قومي ۽ ٽن صوبائي تڪن تي فنڪشنل ليگ جا چونڊيل نمائنده آهن پر انهن مان ڪنهن پنهنجي ضلعي جي تباهي ۽ گئس اينڊ آئل ڪمپنينز خلاف اسيمبيلين ۾ آواز ناهي اٿاريو،  اها ڳالهه ضلعي م هر ماڻهو جي زبان تي آهي فنڪشنل ليگ توڙي پ پ  جي چونڊيل نمائنده ۽ پارٽي اڳواڻن جو انهن ڪمپنين سان ڳٺ جوڙ آهي ۽ هر مهيني اهي انهن کان منٿليون وٺن ٿا ۽ پنهنجا ماڻهو رکن ٿا ان لاءِ اهي ان معاملي تي ڳالهائڻ لاءِ تيار ناهن

                                                        
 مقامي ماڻهن جا احتجاج  پر وڏيرا انهن کي هائيجڪ ڪري ويا

 آئل اينڊ گئس ڪمپنين خلاف مقامي ماڻهن ڪيترائي احتجاج ڪيا پر انهن احتجاجن کي مقامي وڏيرا هائجيڪ ڪري ويا، جنهن سبب سندن احتجاج بنا نتيجي تي پڄاڻي تي پهتا، ٻئي طرف ڪمپنين مقامي ماڻهن جي احتجاج کان بچڻ ۽ انهن کي هيسائڻ لاءِ رينجرز جون خدمتون پڻ ورتيون آهن جيڪي انهن ڪمپنين اندر مقرر آهن 
            
 اڪثر ڪمپنين  ۾ جي ايم، ايم  ڊي تي آرمي جا ريٽائرڊ آفيسر مقرر ٿيل
 سانگهڙ ضلعي ۾ ڪم ڪندڙ اڪثر ڪمپنين جا ايم ڊي، جي ايم ، ايڊمنسٽريٽر ۽ مٿين پوسٽن تي آرمي جا ريٽائرڊ آفيسر مقرر ٿيل، جيڪي مقامي ماڻهن سان ڳالهائڻ به پسند نٿا ڪن ۽ ضلعي انتطاميا جي پڻ ٻڌڻ لاءِ تيار ناهن. ضلعي جو ڊپٽي ڪمشنر پڻ سندن اڳيان بيوس هجي ٿو

Shahnawaz Khaskheli
2k14/MMC/48 ( Final year)


Improver ( 1st year 2nd semester )

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Labels: ,